کورونا:جرمن میں علاج کے نئے رہنما اصول، عمر اور سماجی حیثیت کا کوئی دخل نہیں ہوگا
جرمنی میں کورونا کےمریضوں کے لیے انتہائی نگہداشت کی سہولیات شدید کمی پیدا ہو سکتی ہے۔ طبی تنظیموں نے رہنما اصول طے کر لیے ہیں جن کے تحت مجبوری میں مریضوں کی زندگی اور موت کے فیصلے کیے جا سکیں گے۔
جرمنی ان پانچ ممالک میں سے ایک ہے، جہاں کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ مقامی وقت کے مطابق جمعہ ستائیس مارچ کی سہ پہر تک یورپی یونین کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں کورونا وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری کووِڈ انیس کے شکار مریضوں کی کل تعداد سینتالیس ہزار سے متجاوز اور ہلاکتوں کی تعداد دو سو اکیاسی ہو چکی تھی۔
دیگر ممالک کی طرح جرمنی میں بھی طبی شعبے کی کارکردگی کا احاطہ کرنے والے ایسے قوانین پہلے ہی سے نافذ ہیں کہ ڈاکٹر مریضوں کا علاج کرتے ہوئے ان کی زندگی اور موت سے متعلق فیصلے کن بنیادوں پر کرتے ہیں۔
اب لیکن کووِڈ انیس کے وبائی پھیلاؤ کے باعث جرمن ڈاکٹروں کی متعدد تنظیموں نے ان ضوابط اور پیشہ وارانہ اخلاقیات کا نئے سرے سے جائزہ لیتے ہوئے واضح کر دیا ہے کہ کورونا وائرس کے انتہائی حد تک بیمار مریضوں کا علاج کرتے ہوئے ترجیحات کا تعین کیسے کیا جائے گا۔
ترجیحات کا تعین
مختلف ہسپتالوں کے ایمرجنسی شعبوں میں کام کرنے والے جرمن ڈاکٹروں اور انتہائی نگہداشت کے ماہر معالجین کی ملکی تنظیم ڈی آئی وی آئی کے صدر اُوے ژانسنز نے برلن میں بتایا، ''ملکی ڈاکٹروں کی تمام تنظیموں نے اپنے اخلاقی ضابطوں کا ایک ایسا نیا مجموعہ جاری کر دیا ہے، جو کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے دوران یہ طے کرنے میں مدد دے گا کہ کن حالات میں کس مریض کی جان بچانے کی کوشش کی جانا چاہیے اور کسے بہت مجبوری میں لیکن اس کے حال پر ہی چھوڑ دیا جانا چاہیے۔‘‘
ڈاکٹر اُوے ژانسنز نے صحافیوں کو بتایا، ''ہم کسی بھی ممکنہ صورت حال کے لیے تیار رہنا چاہتے ہیں۔ کوئی بھی ڈاکٹر یہ نہیں چاہتا کہ اسے ایسی کسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے۔ لیکن اگر ایمرجنسی میں ہمیں ایسا کرنا پڑ گیا تو ترجیحات بہرحال واضح ہونا چاہییں۔‘‘
ترجیح کس کو دی جائے گی؟
ڈی آئی وی آئی کے سربراہ ڈاکٹر اُوے ژانسنز کے مطابق یہ فیصلہ کہ کس مریض کا علاج ترجیحاﹰ کیا جانا چاہیے، کورونا وائرس کی وبا کے دوران بھی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ بنیادوں پر کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا، ''اس عمل کی شفافیت اور اس دوران عوام کا اعتماد حاصل رہنا دونوں ہی کلیدی اہمیت کے حامل عوامل ہیں۔‘‘
جرمن ڈاکٹروں کی سات ملکی تنظیموں کی تیار کردہ ان متفقہ سفارشات کے مطابق انتہائی نگہداشت کے شعبوں میں آئندہ بھی کسی مریض کے علاج میں یہ بات مدنظر رکھی جائے گی کہ اس کے بچ جانے کے امکانات کتنے زیادہ ہیں۔
ڈاکٹر ژانسنز کے مطابق، ''کسی بھی ہنگامی صورت حال میں یہ فیصلہ مختلف شعبوں کے تین غیر جانبدار ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کیا کرے گی کہ کسی مریض کے بچنے کے امکانات کتنے زیادہ ہیں۔ اس فیصلے میں مریض کی بیماری کی شدت، اس کو لاحق دیگر امراض اور خود مریض کی اپنی خواہش بھی پیش نظر رکھے جائیں گے۔‘‘
'بہت بڑی جذباتی اور اخلاقی ذمے داری‘
ان سفارشات میں تاہم یہ بھی واضح کر دیا گیا ہے، ''یہ بات کسی بھی شبے سے بالاتر ہے کہ کسی مریض کی زندگی یا موت کے کسی بھی طبی فیصلے میں اس مریض کی عمر یا اس کی سماجی حیثیت کا قطعاﹰ کوئی عمل دخل نہیں ہو گا۔‘‘
اس فیصلے کی دستاویز کے مطابق، ''یہ بات بھی طے شدہ ہے کہ ایسی کسی بھی صورت حال میں کسی ایسے مریض کو طبی ترجیح نہیں دی جائے گی، جس کی جسمانی موت کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہو۔‘‘ اس دستاویز میں یہ بھی زور دے کر کہا گیا ہے کہ کسی بھی مریض کی زندگی یا موت کا ایسا کوئی بھی ممکنہ فیصلہ اس کا علاج کرنے والی طبی ٹیم کے لیے 'بہت بڑی جذباتی اور اخلاقی ذمے داری سے جڑا‘ ہوا ہوتا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔