سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد دہلی حکومت کی ذمہ داری بڑھی
کیجریوال نے سال 2015 میں جو عوام سے وعدے کئے تھے ان کو اب پورا کرنا ہوگا۔ جو کہ عآپ حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
دہلی میں اصلی حکمراں ایل جی ہیں یا عوام کی منتخب حکومت ، اس پر سپریم کورٹ کی پانچ رکنی آئینی بینچ نے جو فیصلہ دیا ہے اس کی روح یہی ہے کہ تمام فریق مل جل کر کام کریں اور زمین، پولس اور عوامی آرڈر کے جو تین ریزرو موضوعات ہیں اس کے مالک دہلی کے ایل جی ہیں۔ اس فیصلہ کی تشریح ہر سیاسی پارٹی اپنے حساب سے کر رہی ہے ۔ عام آدمی پارٹی نے اس فیصلہ کو تاریخی قرار دیتے ہوئے اس کو دہلی کے عوام کی بڑی جیت بتایا ہے ۔ دوسری جانب دہلی بی جے پی کی قیادت کوسپریم کورٹ کے فیصلے میں کچھ نیا نظر نہیں آتا۔ کانگریس کا کہنا ہے اب جب سپریم کورٹ نے سب کچھ شیشے کی طرح صاف کر دیا ہے اس کے بعد دہلی میں کام نہ ہونے کی کوئی وجہ باقی نہیں رہ گئی ہے اور اب الزام تراشی کا دور ختم ہو جانا چاہئے۔
538 صفحات کے اس آرڈر میں یہ ضرور کہا گیا ہے کہ ایسا نہیں ہے کہ ایل جی مالک و کل ہیں بلکہ عوام کی منتخب حکومت جو عوام کے تئیں جواب دہ ہے اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔ عام آدمی پارٹی کا کہنا ہے کہ جو حقوق سابق وزیر اعلی شیلا دکشت کے دور میں دہلی حکومت کے پاس تھے ان کو بحال کر دیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے صرف ان حقوق کی تشریح کی ہے جو آئین میں پہلے سے موجود ہیں اور تمام فریقین کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے۔ سپریم کورٹ نے جہاں دہلی کو مکمل ریاست کے درجہ کی بات نہیں کی ہے وہیں منتخب حکومت اور ایل جی کو کھلی چھوٹ بھی نہیں دی ہے ۔اس فیصلہ کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اب دونوں فریق کو کام کرنا ہوگا۔
اس فیصلے کے بعد وزیر اعلی اروند کیجریوال کی ذمہ داری بڑ ھ گئی ہے اور اب ان کو دہلی کے عوام کے لئے زیادہ کام کرنا ہوگا اور سال 2015 میں عوام سے جو وعدے کئے تھے ان کو پورا کرنا ہوگا۔ جو کہ عآپ حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔