اَب بی جے پی ممبر اسمبلی کے بیٹے پر اجتماعی عصمت دری کا الزام
اتر پردیش میں بی جے پی لیڈروں کی گھناؤنی حرکتیں روز بہ روز منظر عام پر آ رہی ہیں۔ تازہ معاملہ شاہجہاں پور کا ہے جہاں کی ایک خاتون نے ممبر اسمبلی روشن لال کے بیٹے پر عصمت دری کا الزام عائد کیا ہے۔
بی جے پی حکمراں ریاست اتر پردیش میں جرائم کے واقعات تو عروج پر ہیں ہی لیکن جس طرح خواتین کی عصمت دری کے نئے نئے معاملے روزانہ منظر عام پر آ رہے ہیں وہ تشویشناک ہیں۔ اُناؤ میں بی جے پی ممبر اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر کے خلاف عصمت دری کا معاملہ چل ہی رہا ہے اور اب ریاست کے شاہجہاں پور کی ایک خاتون نے بی جے پی ممبر اسمبلی روشن لال ورما کے بیٹے منوج ورما پر عصمت دری کا الزام عائد کیا ہے۔ یہ خاتون انصاف حاصل کرنے کے لیے پیر کے روز دھرنے پر بیٹھی۔
دراصل یہ معاملہ 2011 کا ہے لیکن شکایت کے باوجود ممبر اسمبلی کے بیٹے کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے۔ شاہجہاں پور میں ضلع کلکٹر دفتر کے باہر دھرنا دینے والی 28 سال خاتون کا کہنا ہے کہ 2011 میں ممبر اسمبلی اور ان کے بیٹے نے اس کا اغوا کیا تھا جس کے بعد اس کی اجتماعی عصمت دری کی گئی۔ متاثرہ کا کہنا ہے کہ پولس میں شکایت کی گئی ، لیکن سیاسی دباؤ کی وجہ سے پو لس اس معاملے میں کوئی بھی کارروائی نہیں کر رہی۔
ذرائع کے مطابق خاتون کی شکایت کے بعد سال 2011 میں ہی ممبر اسمبلی اور اس کے بیٹے کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 366، 363 اور 376 کے تحت کیس درج کیا گیا تھا لیکن ان کے خلاف مناسب ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کیس کو 2013 میں بند کر دیا گیا۔ اب جب کہ متاثرہ خاتون انصاف کے لیے دھرنے پر بیٹھی ہے تو افسران نے اسے انصاف دلانے کی یقین دہانی کرائی اور دھرنا ختم کرایا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اجتماعی عصمت دری معاملے کو دبانے کے لیے اس خاتون کی شادی بی جے پی ممبر اسمبلی روشن لال کے چھوٹے بیٹے ونود ورما سے 2012 میں کی گئی۔ لیکن ایک سال بعد دونوں علیحدہ ہو گئے تھے۔ دونوں کی ایک بیٹی بھی ہے جو پانچ سال کی ہے۔ جو کہ اپنی ماں کے ساتھ رہ رہی ہے۔ متاثرہ خاتون کا کہنا ہے کہ وہ ایک چھوٹے گاؤں سے تعلق رکھتی ہے اور منصوبہ بند طریقے سے اسے ممبر اسمبلی کے چھوٹے بیٹے سے شادی کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ خاتون کا کہنا ہے کہ جلد ہی اسے معلوم ہو گیا کہ ممبر اسمبلی نے اپنی شبیہ اور خود اپنے بڑے بیٹے کے خلاف عصمت دری کیس سے بچنے کے لئے شادی کرائی گئی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 08 May 2018, 5:13 PM