دہلی: 5 مہینوں میں سیور نے 8 لوگوں کی لی جان، حکومت خاموش

غیر قانونی ہونے کے باوجود کھلے عام لوگوں کو سیور-سیپٹک ٹینک میں اتارا جا رہا ہے۔ نتیجہ کار دہلی میں گزشتہ پانچ مہینوں میں 8 لوگوں کی جان جا چکی ہے اور پورے ملک میں 2018 میں اموات کی کل تعداد 83 ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بھاشا سنگھ

ملک کی راجدھانی دہلی کے پاش علاقہ موتی نگر میں ڈی ایل ایف کیپٹل گرین سوسائٹی میں تعمیر شدہ اپارٹمنٹ میں بنے سیپٹک ٹینک کو صاف کرتے ہوئے 5 نوجوانوں کی جان چلی گئی اور دو دن گزر جانے کے بعد بھی قصورواروں کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں ہوئی۔ سال 2018 میں صرف دہلی میں آٹھ لوگوں کی جان سیور-سیپٹک ٹینک صفائی میں جا چکی ہے جب کہ ملک بھر میں اس سال اب تک 83 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ گزشتہ سال تنہا دہلی میں ایسی اموات کی تعداد 12 ہے۔

ملک بھر میں سیور-سیپٹک ٹینک میں ہو رہی اموات کو روکنے اور غلاظت اٹھانے کی روایت ختم کرنے کے لیے کام کر رہے صفائی ملازمین تحریک کے لیڈر بیجواڑا ولسن نے بتایا کہ ’’یہ سبھی قتل ہیں اور اس کے لیے حکومتیں اور ڈی ایل ایف سمیت تمام افسران ذمہ دار ہیں۔ جب سیوریج پلانٹ بنایا گیا ہے تو اس کی صفائی کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا۔ اس کا جواب کون دے گا؟ ملک کا قانون صاف طور پر کہتا ہے کہ کسی کو گٹر یا سیپٹک ٹینک میں نہیں اتار سکتے، پھر کیوں دہلی سمیت پورے ملک میں انسانوں کو اتارا جا رہا ہے۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’پانچ نوجوانوں کی جان چلی گئی اور وزیر اعظم سے لے کر وزیر اعلیٰ تک کوئی ایک لفظ نہیں بولتے... آخر کیوں؟ گٹر میں مرنے والے کیا ہندوستانی شہری نہیں ہیں، کیا ان کی زندگی کی کوئی قیمت نہیں ہے؟ اب تک 1700 سے زیادہ ہندوستانی شہریوں کا قتل سیور-سیپٹک ٹینک میں ہو چکا ہے لیکن کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘

مذکورہ تحریک کے دباؤ کی وجہ سے اب ان اموات میں جو ایف آئی آر درج ہوتی ہے اس میں تعزیرات ہند کی دفعہ 18/341، 304 اے، میلا ختم کرنے کی روایت اور اس کی باز آبادکاری قانون 2013 اور ایس سی-ایس ٹی ظلم مخالف قانون کی متعلقہ دفعات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔ سیوریج پلانٹ کے انچارج اجے چودھری کی گرفتاری ضرور ہوئی ہے لیکن بڑے ذمہ دار افسران پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی اور نہ ہی ہلاک لوگوں کے گھر والوں کو معاشی مدد یا معاوضہ دیا گیا ہے۔

ہلاک پانچوں نوجوان پنکج کمار یادو (26 سال)، امیش کمار (22 سال)، مرتیونجے کمار سنگھ عرف راجہ (20 سال)، سرفراز (19 سال) اور وشال (19 سال) کو نہ تو سیور-سیپٹک ٹینک کی صفائی کرنے کا کوئی تجربہ تھا اور نہ ہی ان کے پاس یہ کام تھا۔ وہ پمپ آپریٹر تھے یا پھر ہاؤس کیپنگ کا کام کرتے تھے۔ ان کے گھر والوں نے رپورٹرس سے صاف لفظوں میں کہا کہ انھیں ڈرا دھمکا کر گیس چیمبر میں اتارا گیا اور مرنے کے بعد اسپتال میں نہ تو کمپنی کا کوئی افسر آیا اور نہ ہی حکومت کا۔ کسی نے کوئی مدد نہیں کی، وہ اپنے خرچ سے ہی لاشوں کو اپنے اپنے گاؤں لے جا رہے ہیں۔ مہلوک پنکج یادو کے چچا راج دیو یادو نے بتایا کہ ’’پنکج ایک سال پہلے ہی جون پور، اتر پردیش سے دہلی آئے تھے اور انھیں ڈی ایل ایف کیپٹل گرین میں سیوریج کلیننگ اور ہاؤس کیپنگ کا کام کرنے والی فرم ’اُنّتی‘ میں 1200 روپے میں کام ملا تھا۔ اسے جان بوجھ کر گندگی میں اتارا گیا اور وہ ختم ہو گیا۔ مجھے اس بات پر بہت افسوس اور ناراضگی ہے کہ اسپتال تک میں کمپنی کا کوئی آدمی نہیں آیا۔ انھوں نے ہمارے بچے کو مار دیا اور دیکھنے بھی نہیں آئے۔‘‘

اسی طرح بہار کے دربھنگہ علاقہ سے تعلق رکھنے والے 19 سالہ سرفراز کے والد محمد حئی ال نے بتایا کہ ’’سرفراز بہت ہونہار بچہ تھا لیکن غریبی اتنی تھی کہ پڑھا نہ پائے۔ گزشتہ سال ہی اس نے بی اے اوپن میں داخلہ لیا تھا۔ وہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ میں موٹر آپریٹر تھا۔ 9000 میں رکھا گیا تھا۔ پھر اسے دھمکا کر اندر اتارا گیا۔‘‘ محمد حئی ال معذور ہیں اور انھیں اپنے بیٹے سرفراز کا ہی سہارا تھا۔ وہ گاڑی کر کے جوان بیٹے کی لاش گاؤں لے جاتے وقت غش کھا رہے تھے۔

سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کی راجدھانی دہلی میں جب کچھ مہینوں کے اندر آٹھ لوگوں کی موت سیور-سیپٹک ٹینک کی صفائی کرتے ہوئے ہوئی اور آج بھی کھلے عام قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہو چکی ہے پھر بھی آخر کس طرح لوگوں کو سیور میں اتارا جا رہا ہے۔ سال 2014 میں سپریم کورٹ نے بھی اپنے تاریخی فیصلے میں اس عمل کو غیر قانونی ٹھہرایا تھا اور حکومت کو حکم دیا تھا کہ 1993 سے لے کر حال تک جتنی بھی اموات سیور-سیپٹک ٹینک کی صفائی میں ہوئی ہیں، سب کے گھر والوں کو 10 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے۔ اس پر بھی عمل ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔

صفائی ملازمین تحریک میں سیوریج ورکرس پلیٹ فارم کی انچارج رینو چھاچھر نے بتایا کہ ’’ہر چیز کے لیے جدید تکنیک ہے، صرف سیور-سیپٹک ٹینک صاف کرنے کے لیے نہیں ہے۔ سب کو پتہ ہے کہ یہ غیر قانونی ہے لیکن پھر بھی اس پر کوئی روک نہیں لگتا کیونکہ کسی قصوروار کے خلاف بڑی کارروائی نہیں ہوتی۔ دہلی میں اس سال مئی سے لے کر ستمبر تک 8 اموات ہو گئیں اور کسی کو کوئی فرق نہیں پڑا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔