افواہ کے بعد اترا کھنڈ میں مسلمانوں کی 6 دکانیں نذرآتش
ایک مسلم نو جوان کے ذریعہ ایک لڑکی کی عصمت دری کا پیغام فیس بک پر ایسا وائرل ہوا کہ ردرپریاگ ضلع کے اگستے منی شہر میں جمعہ کو مسلمانوں کی کئی دوکانوں کو نذر آتش کر دیا گیا۔
فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کی حکمت عملی کے تحت ردر پریاگ شہر کے علاقہ میں مسلم تاجروں کی 6 دکانوں کوجلا دیا گیا۔ گڑھوال ضلع کا یہ واقعہ سوشل میڈیا پر پھیلا ئی گئی ایک افواہ کی وجہ سے پیش آیا۔
اکھل بھارتیہ ودھیارتی پریشد (اے بی وی پی) سے مبینہ طور پر جڑے لوگوں کے ساتھ مل کر فرقہ پرست گروہ نے ایک جلوس نکالا اور مسلم دکانداروں کی 6 دکانوں کو اپنے غصہ کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعہ سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ایک افواہ کا نتیجہ تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک مسلم نوجوان نے نابالغ لڑکی کے ساتھ عصمت دری کی ہے۔ مظاہرین نے مسلم مخالف نعرے لگائے اور غصہ میں اس مبینہ عصمت دری کے معاملہ کے خلاف دکانوں کو آگ لگا دی جوواقعہ حقیقت میں ہوا ہی نہیں تھا۔
اس میں خاص بات یہ ہے کہ اس مبینہ عصمت دری کی خبر کے تعلق سے ردر پریاگ کے ضلع افسر نے یہ بیان دیا ہے کہ وہ صرف سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی ایک افواہ تھی۔ ردرپریاگ کے ضلع افسر منگیش گھلڈیال نے کہا ہے کہ کچھ لوگوں نے نوجوان اور ایک لڑکی کی تصویر فیس بک پر پوسٹ کی جس میں چہرا صاف نہیں دکھ رہا تھا۔ پوسٹ میں یہ بھی لکھا گیا کہ ایک خاص مذہب کے نوجوان نے دوسرے مذہب کی نابالغ لڑکی کے ساتھ عصمت دری کی ہے۔ نوجوان اور لڑکی کی شاخت کو ظاہر نہیں کیا گیا اور اس معاملہ کی شکایت بھی درج نہیں کرائی گئی۔ کیونکہ یہ پورا واقعہ صرف ایک افواہ تھی۔ ضلع افسر نے بتایا کہ پولس اس شخص کی تلا ش کر رہی ہے جس نے اس افواہ کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح کی افواہ پھیلانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے لوگوں سے امن بنائے رکھنے کی اپیل کی۔
واضح رہے جب سے اتراکھنڈ میں بی جے پی کی حکومت بنی ہے تب سے کسی نہ کسی بات کو لے کر یہاں رہ رہے اقلیتی طبقہ کی دکانوں پر لگاتار حملہ کئے جا رہے ہیں۔ اقلیتی طبقہ کے کسی فرد کے ذریعہ کیا گیا قتل، کوئی مجرمانہ فعل یا مبینہ محبت کا واقعہ بے قصور مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے لئے کافی وجہ ہے۔ گزشتہ سال اکتوبر میں رائے والا میں ہوئے ایک قتل کے بعد ہند وگروہوں نے رشی کیش سے لے کر ہری دوار تک مسلمانوں کی دکانوں اور گھروں پر حملے کئے تھے۔ بی جے پی کی حکومت کے بعد سے اتراکھنڈ میں ایسے واقعات عام ہو گئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 07 Apr 2018, 7:11 AM