سیتامڑھی: حراست میں پولس نے لی غفران اور تسلیم کی جان! 5 پولس اہلکار معطل

موٹر سائیکل چرانے اور قتل کے الزام میں گزشتہ دنوں حراست میں لیے گئے دو مسلم نوجوان کی موت نے پولس محکمہ پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ دونوں کی لاش پر موجود زخم پولس بربریت کی طرف واضح اشارہ کر رہے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

گزشتہ 7 مارچ کو بہار واقع سیتامڑھی میں پولس حراست میں دو مسلم نوجوانوں کی موت سے متعلق حیران کرنے والا معاملہ سامنے آیا ہے۔ میڈیا ذرائع کے مطابق مہلوکین 30 سالہ غفران عالم اور 32 سالہ تسلیم انصاری کے جسم پر مظالم کے کچھ ایسے نشانات دیکھنے کو ملے ہیں جو اندیشہ ظاہر کرتے ہیں کہ حراست میں وہ پولس کی بربریت کا شکار ہوئے ہیں۔ یہ معاملہ منظر عام پر آنے کے بعد 5 پولس اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے اور ساتھ ہی ان کے خلاف ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق پولس کے خلاف یہ کارروائی تب کی گئی جب مہلوکین کے گھر والوں نے پولس پر دونوں نوجوانوں کو بے رحمی سے پیٹنے کا الزام عائد کیا۔ دراصل مہلوکین کے جسم پر ناخونوں اور سنگین چوٹوں کے نشان تھے جس کی تصویریں اور ویڈیو ان کے گھر والوں نے پولس کے ساتھ شیئر کی ہیں۔ انگریزی روزنامہ ’دی انڈین ایکسپریس‘ کو دیے انٹرویو میں بہار کے ڈی جی پی گپتیشور پانڈے نے بتایا کہ ’’ہم نے سیتامڑھی کے ڈمرا تھانہ انچارج چندر بھوشن سنگھ سمیت پانچ پولس اہلکاروں کو معطل کر دیا ہے۔ ان کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ اس معاملے میں ہم نے سیتامڑھی کے ایس پی کو بھی وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ ’’قصورواروں کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی ہوگی۔ اگر ان سبھی نے خودسپردگی نہیں کی تو انھیں برخواست بھی کیا جا سکتا ہے۔ سیتامڑھی کے ایس پی کا بھی تبادلہ کر دیا گیا ہے اور انھیں وجہ بتاؤ نوٹس بھی جاری کیا گیا ہے۔‘‘

جہاں تک غفران اور تسلیم کی گرفتاری کا سوال ہے، تو 6 مارچ کی صبح سویرے پولس انھیں ایسے وقت گرفتار کرنے پہنچی تھی جب سبھی نیند کی آغوش میں تھے۔ ان دونوں کو مظفر پور کے رام ڈیہہ باشندہ راکیش کمار کی موٹر سائیکل چوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ موٹر سائیکل کے مالک کو جان سے مارنے کا الزام بھی دونوں پر عائد کیا گیا تھا۔ اس تعلق سے غفران کے والد منور علی کہتے ہیں کہ ’’ہم سبھی سو رہے تھے جب اچانک چکیا پولس اسٹیشن سے پانچ پولس اہلکار آئے اور غفران کو لے گئے۔ اس کے بعد انھوں نے تسلیم کو گرفتار کیا۔ تسلیم پر پہلے سے بھی 4 مجرمانہ معاملے درج تھے لیکن غفران کا کوئی پچھلا جرائم ریکارڈ نہیں تھا۔‘‘

غفران کے والد کا کہنا ہے کہ جب وہ نعش کو غسل دینے کے بعد دفنانے کی تیاری کر رہے تھے تو کچھ رشتہ داروں نے جسم پر ناخونوں کے زخم دیکھے۔ اس سے پولس پر شک گہرا ہو گیا۔ متاثرہ کنبہ کی کاغذی کارروائی میں مدد کر رہی سبل رونی کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے نعشوں کے جسم پر پائے گئے چوٹ کے نشانات کی تصویریں کھینچ لیں اور ویڈیو بھی بنا لی۔ ابھی پوسٹ مارٹم رپورٹ کا انتظار کیا جا رہا ہے جس سے موت کی وجہ کی تصدیق ہو سکے گی۔‘‘ تسلیم کے بڑے بھائی ثناور علی گرفتاری کے بعد کے لمحات کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’گرفتاری کے بعد جب میں پولس اسٹیشن پہنچا تو تسلیم اور غفران نہیں ملے۔ کچھ گھنٹوں بعد جب وہ دوبارہ چکیا پولس اسٹیشن پہنچے تو بتای اگیا کہ دونوں کو ڈمرا تھانہ بھیج دیا گیا ہے۔‘‘ ثناور بتاتے ہیں کہ جب انھوں نے غفران سے فون پر بات کی تو وہ کافی مشکل سے بات کر پا رہا تھا۔ بات چیت کے دوران غفران نے بتایا تھا کہ پولس نے اسے بری طرح سے پیٹا ہے۔

ایسے ماحول میں پریشان ثناور ڈمرا تھانہ بھی پہنچے لیکن وہاں موجود خاتون کانسٹیبلوں نے بتایا کہ غفران کو صدر اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ اسپتال پہنچنے پر پتہ چلا کہ دونوں کی ہی موت ہو چکی ہے اور ان کے جسم کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ کسی کو لاش دیکھنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ ان سب واقعات کی وجہ سے پولس کے خلاف لوگوں کا شک گہرا ہو گیا اور جب ان کے جسم پر زخموں کے نشان دیکھے گئے تو پولس کے خلاف کارروائی کے لیے مہلوکین کے گھر والوں نے قدم آگے بڑھایا۔

اس درمیان غفران کے گھر والوں نے پولس حراست میں ہوئے قتل کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور حکومت سے 50 لاکھ روپے معاوضہ کا مطالبہ کیا ہے۔ ساتھ ہی مہلوک کی بیوی کو ملازمت دینے کی مانگ بھی انھوں نے رکھی ہے۔ دوسری طرف تسلیم کے والد کا کہنا ہے کہ ان کے بیٹے کا کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہیں تھا پھر بھی پولس نے اسے بے رحمی سے پیٹا جس کے سبب وہ بہت رنجیدہ ہیں۔ انھوں نے پولس کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے سوال اٹھایا کہ سزا دینا تو عدالت کا کام ہے پھر پولس نے اس کی بے رحمی سے پٹائی کیوں کی؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔