کسان تحریک: نوجوان کسانوں کے لئے تیار کر رہے لڈو اور اپنے ہاتھ کی روٹی کھلانا چاہتی ہیں خواتین
دہلی سے 150 کلومیٹر دور واقع دیول گاؤں کے ہمت سنگھ کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون سے تو چھوٹے کسان تباہ ہوجائیں گے۔
دہلی میں جاری کسانوں کی تحریک کا دائرہ ہر نئے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور تحریک میں حصہ لے رہے کسانوں اور خواتین کے خلاف متنازعہ بیانات سے ویسے تو سب لوگ ہی غصہ میں ہیں لیکن خواتین کے تعلق سے دیئے گئے بیانات سے خواتین میں بہت سخت ناراضگی ہے۔ بجنور میں گنگا کنارے کھادر کےعلاقہ میں رہنے والی 72 سالہ ہردیو کور نے قومی آواز کو بتایا ’’وہ بیماری کی وجہ سے مجبور ہیں لیکن دل ان کا دہلی میں ہی پڑا ہے۔ یہ کسان ہمارے کھیت اور کھیتی بچانے کے لئے لڑ رہے ہیں، میں ان کی پوری حمایت کرتی ہوں۔‘‘ اپنے گھٹنوں کی بیماری سے جوجھ رہیں ہردیو کور کا مزید کہنا تھا ’’یہ لڑائی صرف پنجاب اور ہریانہ کے کسانوں کی نہیں ہے بلکہ پورے ملک کے کسانوں کی ہے۔‘‘
ایسا نہیں ہے کہ وہ حقیقت سے واقف نہیں ہیں۔ ٹی وی اور موبائل کی وجہ سے وہ پورے مسائل سے واقف ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’’حکومت کہہ رہی ہے کہ وہ قانون کسانوں کے فائدہ کے لئے لا رہی ہے لیکن کسان ایسا نہیں چاہتے حکومت پھر کسانوں پر یہ تھوپ کیوں رہی ہے۔ مان لیا حکومت ہمیں لڈو کھلانا چاہتی ہے لیکن ہمیں یہ پسند نہیں ہے تو پھر حکومت اسے ہمارے منہ میں کیوں ٹھوس رہی ہے۔‘‘
ہردیو کور کے شوہر اپنی اہلیہ کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہتے ہیں ’’پہلے ایک کمپنی نے موبائل کے سم مفت میں بانٹ دیئے اور اب کسی دوسری کمپنی کے موبائل کے سنگنل ہی نہیں آتے، ہمیں ایسا لڈو نہیں کھانا جو پیٹ خراب کر دے۔‘‘ دیول گاؤں کے رہنے والے ہمت سنگھ پانچ ایکڑ زمین کے مالک ہیں اور انہوں نے بتایا کہ اس نئے قانون سے ان کی بیوی تک پریشان اور بے چین ہے۔ دہلی سے 150 کلومیٹر دور واقع دیول گاؤں کے ہمت سنگھ کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون سے تو چھوٹے کسان تباہ ہوجائیں گے۔
دیول گاؤں کی ہی 52 سالہ راجندر کور دہلی جاکر احتجاج کر رہے کسانوں کو روٹی بنا کر کھلانا چاہتی ہیں۔ راجندر کور فلم اداکارہ کنگنا رنوت کے اس بیان سے سخت ناراض ہیں جو انہوں نے بزرگ خاتون مہندر کور کے تعلق سے دیا تھا۔ انہوں نے کہا ’’خواتین اپنے مردوں سے جڑی ہوئی ہیں اور جب ان کے خاوند دھرنے پر بیٹھے ہوئے ہیں تو وہ گھر پر رہ کر کیا کریں گی۔‘‘ کنگنا کے بیان پر انہوں نے کہا کہ ’’کنگنا ان کے جانوروں کے لئے ایک گھنٹے چارا تیار کردیں اس کے لئے وہ ان کو ایک ہزار روپے دے دیں گی۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان کے گاؤں سے خواتین دہلی جاکر کار سیوا کریں گی۔
دیول گاؤں کے سابق پردھان اوتار سنگھ نے بتایا کہ ان کے گاؤں میں احتجاج کے تعلق سے کافی بات چیت ہو رہی ہے اور گاؤں کے لوگوں کے پاس تحریک کی تمام خبریں ہیں اور کسان ان نئے قوانین کو بالکل برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت تحریک کوغلط طریقہ سے بدنام کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کے لئے وہ نیشنل میڈیا کا استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا ’’ہم نے خون پسینے سے اپنی زمین سینچی ہے ہم اپنی زمین کی لگام امبانی اور اڈانی کے ہاتھوں میں کیسے دے دیں۔‘‘
یہ بھی پڑھیں : دہلی میں کورونا کے قہر سے راحت، نئے معاملوں میں کمی
بجنور کے اسی راستہ پر گرودوارا صاحب رام راج میں درجنوں نوجوان سکھ لڈو بنا رہے ہیں۔ان میں سے ایک نوجوان گرپریت سنگھ لاری بتاتے ہیں کہ دہلی میں کسان اپنے جائز حق کے لئے لڑ رہے ہیں اور ہم ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ان کی امیونٹی یعنی قوت مدافعت بڑھانے کے لئے دیسی گھی، بادام اور بیسن کے لڈو بنا رہے ہیں کیونکہ سردی بڑھ رہی ہے۔ انہیں نوجوانوں میں موجود بوٹا سنگھ اور بھولاسنگھ کہتے ہیں ’’کسانوں کی یہ لڑائی ہمارے لئے ہی ہے اور حکومت کو ہمیں سننا ہی ہوگا۔ کھیتی کرنے والے پہلے سے ہی پریشان ہیں اور اب ان قوانین کے ذریعہ ان کے لئے مزید مشکلیں بڑھائی جا رہی ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔