ٹھاکرے خاندان کے دو نوجوان چہروں میں سے ایک کو کامیابی لیکن دوسرے کو ناکامی ہاتھ لگی

آدتیہ کی جیت میں چچا راج ٹھاکرے کا دخل نظر آرہا ہے، وہیں راج ٹھاکرے کے بیٹے امت کی ہار میں چچا ادھو ٹھاکرے کے فیصلے کو اہم سمجھا جا رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>فائل تصویر آئی اے این ایس</p></div>

فائل تصویر آئی اے این ایس

user

قومی آواز بیورو

ٹھاکرے خاندان تقریباً نصف صدی سے مہاراشٹر کی سیاست پر حاوی رہے ہیں۔ ٹھاکرے خاندان کے دو نوجوان چہرے ، آدتیہ اور امت ، نے 2024 کے اسمبلی انتخابات میں اپنی قسمت آزمائی۔ آدتیہ ٹھاکرے دوسری بار ورلی سے جیتے، جب کہ امت ٹھاکرے، جو ماہم سے پہلی بار لڑے، تیسرے نمبر پر آئے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ان دونوں بھائیوں کے انتخابی نتائج میں ان کے ماموچچا ں کا بڑا کردار مانا جا رہا ہے۔

آدتیہ ٹھاکرے کو اپنی جیت کے لیے چچا راج ٹھاکرے کا شکریہ ادا  کرنا چاہئے، جبکہ  وہیں امت ٹھاکرے چچا ادھو ٹھاکرے کو اپنی شکست کے لئے ذمہ دار ٹھہرا سکتے ہیں۔ ورلی اور ماہم، جو کبھی متحد شیو سینا کا گڑھ سمجھے جاتے تھے، اس بار تین طرفہ مقابلے کا میدان بن گئے تھے۔


ورلی میں، آدتیہ ٹھاکرے شیو سینا (شندے دھڑے) کے تجربہ کار  رہنما اور راجیہ سبھا کے رکن پارلیمنٹ ملند دیورا سے مقابلہ کر رہے تھے۔ ملند دیورا، جن کا ممبئی جنوبی علاقے میں کافی اثر و رسوخ ہے اور وہ سابق مرکزی وزیر بھی رہ چکے ہیں، کو سیاسی تجزیہ کار اس نشست کے لیے مضبوط دعویدار مان رہے تھے۔

2019 میں، آدتیہ نے 72.7 فیصد ووٹ شیئر کے ساتھ ورلی سیٹ جیتی تھی، لیکن اس بار معاملہ کچھ مختلف رہا۔ راج ٹھاکرے کی مہاراشٹر نونرمان سینا(ایم این ایس)، جس نے 2019 میں کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا، اس بار سندیپ دیشپانڈے کو میدان میں اتارا، جس  نے دیورا کا کھیل خراب کردیا۔


آدتیہ ٹھاکرے نے ورلی سیٹ پر 8000 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ آدتیہ کو 60,606 ووٹ ملے، جب کہ دیورا کو صرف 52,198 ووٹ مل سکے۔ وہیں ایم این ایس کے سندیپ دیشپانڈے کو 18,858 ووٹ ملے۔ اگر ایم این ایس میدان میں نہ ہوتی تو شاید آدتیہ اور دیورا کے درمیان مقابلہ مختلف نتیجہ نظر آ سکتا تھا۔

ماہم میں بھی تین طرفہ مقابلہ دیکھنے کو ملا۔ یہاں شندے کی شیو سینا ، ادھو دھڑے (شیو سینا یو بی ٹی) اور ایم این ایس کے درمیان لڑائی تھی۔ اس سیٹ پر ادھو گروپ کے مہیش ساونت نے الیکشن جیتا ہے، نتائج میں مہیش ساونت کو 50213 ووٹ ملے ہیں۔ شندے گروپ کے سدا سرونکر کو تقریباً 48897 ووٹ ملے، جب کہ امت ٹھاکرے تیسرے نمبر پر رہے۔ انہوں نے 33062 ووٹ حاصل کیے اور تقریباً 17 ہزار ووٹوں سے الیکشن ہار گئے۔


اگر ادھو ٹھاکرے نے اپنا امیدوار یہاں کھڑا نہ کیا ہوتا تو عین ممکن ہے کہ امت ٹھاکرے اپنی پہلی انتخابی جنگ میں فتح کا مزہ چکھنے میں کامیاب ہو جاتے۔ مہاراشٹر میں ہونے والے اس انتخابی مقابلے نے ظاہر کیا ہے کہ ٹھاکرے خاندان کے تعلقات چاہے کچھ بھی ہوں، سیاست میں ان کی چالیں براہ راست نتائج پر اثر انداز ہوتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔