مظفر نگر فساد: یوگی حکومت مظلومین پر ایک اور ظلم ڈھانے کو تیار!
چار سال پہلے ہوئے مظفر نگر فساد میں ملزم بنائے گئے بی جے پی لیڈروں سے مقدمات واپس ہونے کی ہلچل کے پیش نظر لیڈروں اور ان کے حامیوں میں جشن کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔
”اتر پردیش حکومت مقدمہ واپسی کی سیاست کر رہی ہے جو بے حد افسوسناک ہے۔ کیا اب فساد متاثرین کو انصاف کی امید چھوڑ دینی چاہیے؟ یہ مقدمے واپس ہوتے ہیں یا نہیں یہ تو وقت بتائے گا لیکن شرمناک بات یہ ہے کہ حکومت نے ایسا کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے اور یہ فساد متاثرین کے زخموں پر یہ نمک چھڑکنے جیسا ہے۔ یہاں انصاف سسک رہا ہے۔“ یہ کہنا ہے کھالاپار مظفر نگر کے 65 سالہ اجمل الرحمن کا۔ جب وہ اپنا جملہ ادا کرتے ہیں تو ان کے چہرے کی مایوسی آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے۔ اتر پردیش حکومت کے ذریعہ مظفر نگر فساد کے دوران ملزم بنائے گئے سابق مرکزی وزیر اور ممبر پارلیمنٹ سنجیو بالیان اور فساد کے دوران سب سے زیادہ متاثرہ حلقہ بڈھانا کے ممبر اسمبلی امیش ملک کے خلاف درج مقدموں کے حوالے سے ایک اسٹیٹس رپورٹ مانگی گئی ہے جس میں جرائم کی دفعات، عدالت کا نام اور موجودہ صورت حال کی تفصیلات طلب کی گئیں ہیں۔ ماہرین کے مطابق اسے مقدمہ واپسی کی ابتدائی کارروائی تصور کیا جاتا ہے۔
فساد کے ملزمان بی جے پی لیڈروں سے مقدمات واپس ہونے کی اس ہلچل کے پیش نظر لیڈروں اور ان کے حامیوں میں جشن کا ماحول دیکھنے کو مل رہا ہے۔ ایک مقامی اخبار میں بی جے پی ممبر پارلیمنٹ سنجیو بالیان کے ذریعہ دیے گئے بیان کے مطابق حکومت مقدمے واپس لے رہی ہے۔ اے ڈی ایم ہریش چندر نے حالانکہ ابھی تک اس کی جانکاری ہونے سے انکار کیا ہے لیکن سنجیو بالیان کے بیان سے ہلچل سی مچ گئی ہے۔ ایس پی سٹی اوم ویر سنگھ کے مطابق خط ملتے ہی اس سلسلے میں کارروائی کی جائے گی۔ قابل ذکر ہے کہ خط 5 جنوری کو جاری کیا جا چکا ہے جسے محکمہ انصاف کے سکریٹری راجیش سنگھ نے بھیجا تھا اور 12 جنوری کو یہ ضلع مجسٹریٹ دفتر میں پہنچا۔
اس خط میں کل 9 مقدمات کے تعلق سے تفصیلات طلب کی گئی ہیں جن میں سے چار پھوگانا تھانہ کے ہیں اور ایک شاہپور تھانہ کا ہے جو کہ کٹبا گاؤں سے متعلق ہے۔ کٹبا وہی گاؤں ہے جہاں اقلیتوں کے خلاف سب سے پہلے اجتماعی تشدد ہوا تھا اور 8 لوگوں کا قتل ہو گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد پولس جب بھی گاؤں میں ملزمین کی گرفتاری کے لیے پہنچتی تھی تو پولس کو زبردست مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سنجیو بالیان ان مقدموں میں ایک ہی معاملے میں ملزم ہیں لیکن یہاں سے مقدمے واپس ہوتے ہیں تو وہ سب سے زیادہ فیضیاب ہوں گے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ کارروائی دراصل انہی کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ یہ کارروائی ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب عدالت لگاتار ان لیڈروں کو نوٹس جاری کر رہی تھی اور انھیں عدالت میں پیش ہونا پڑ رہا تھا۔ اب اگر مقدمہ واپس ہو جاتا ہے تو ان کو عدالت میں حاضری سے نجات بھی مل جائے گی۔ ڈی جی سی (کریمنل) دشینت تیاگی کے مطابق حکومت اپنی جانب سے درج کرائے گئے مقدموں کو واپس لے سکتی ہے لیکن یہ بہت مشکل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ عدالت بہت سارے ایشوز پر غور کرتی ہے۔ پہلے بھی ایسے کچھ معاملے آئے ہیں جن کا منفی جواب ملا ہے اس لیے ممکن ہے کہ ان کو بھی کسی طرح کا فائدہ نہ ملے۔
ڈی جی سی کی بات اس لیے اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس سے قبل اکھلیش حکومت نے کچھ مقدمے واپس لینے کی کوشش کی تھی جس کو عدالت نے نامنظور کر دیا تھا۔ دیوبند کے سابق ممبر اسمبلی معاویہ علی کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ”اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے تو اپنے ہی خلاف درج مقدمے کو ختم کرنے کا کام کر دیا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ ”مظفر نگر فساد لوک سبھا انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے کی گئی خونی سازش تھی۔“ لیکن ایک سچائی یہ بھی ہے کہ 30 تاریخ کو سنجیو بالیان اور امیش ملک گرفتار ہو کر جیل چلے گئے اور 31 اگست و 7 ستمبر کی پنچایت میں وہ جیل میں ہی رہے۔ اس دوران فساد میں لوگ مرتے رہے۔ جب سب کچھ تباہ ہو گیا تو یہ جیل سے واپس آ گئے، اس لیے فساد متاثرین کے ذریعہ کسی معاملے میں یہ نامزد نہیں ہیں۔ حکومت جب چاہے اپنے مقدمے واپس لے سکتی ہے۔
مقدمہ واپسی کی گہما گہمی کے درمیان فساد متاثرین خود کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہے ہیں۔ سماجوادی پارٹی یوجن سبھا کے سابق ضلع صدر شمشیر ملک کہتے ہیں کہ ”فساد متاثرین کو انصاف ملنا چاہیے، مقدمہ واپسی کی یہ کوشش پوری طرح غلط ہے۔ یہ تو فساد متاثرین پر مزید ظلم ثابت ہوگا۔“ فساد میں ہی دوسرے فریق سے ملزم بنائے گئے ایڈووکیٹ اسد زماں کا کہنا ہے کہ ”فیصلہ عدالت پر چھوڑ دینا چاہیے ورنہ لوگوں کا قانون پر سے بھروسہ اٹھ جائے گا۔“ اسد زماں قصورواروں کو سخت سزا دیے جانے کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔
یہ سبھی باتیں ایسے وقت میں سامنے آئی ہیں جب مظفر نگر فساد میں سمجھوتہ کی بات چل رہی ہے اور اس میں مظلوم اور ملزم دونوں جانب سے رد عمل سامنے آ رہے ہیں۔ لیکن ان سب کوششوں سے یہاں کے مسلمانوں میں ایک مایوسی کا عالم دیکھنے کو مل رہا ہے جو جمہوریت کے لیے مناسب معلوم نہیں پڑتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 22 Jan 2018, 7:13 PM