یوگی حکوت اتر پردیش میں ظلم اور انتشار کو فروغ دے رہی ہے: پرینکا گاندھی
’’کچھ دنوں سے ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ریاستی حکومت و پولس انتظامیہ کے ذریعہ کئی جگہ مظالم ہوئے۔ پولس نے کچھ ایسے اقدام کیے ہیں جو نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ انارکی کو فروغ دینے میں ان کا اہم کردار رہا‘‘
اتر پردیش میں بے قصور عوام پر یوگی حکومت اور پولس کی ظالمانہ کارروائی کا ثبوت کانگریس نے ریاستی گورنر آنندی بین پٹیل کے حوالے کر دیا ہے۔ آج صبح کانگریس کے ایک نمائندہ وفد نے ایک چٹھی کے ساتھ تفصیلی دستاویز ات گورنر کو پیش کئے جس میں چار مطالبات بھی کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے آج لکھنؤ میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے گورنر کو پیش کیے گئے دستاویز ات کی کچھ اہم باتیں میڈیا کے سامنے رکھیں۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’کچھ دنوں سے ہم سب دیکھ رہے ہیں کہ ریاستی حکومت اور پولس انتظامیہ کے ذریعہ کئی جگہ مظالم ہوئے۔ ریاستی انتظامیہ نے کچھ ایسے اقدام کیے ہیں جو نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ انارکی کو فروغ دینے میں ان کا اہم کردار رہا۔‘‘ انھوں نے پولس کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’بجنور کے دو مہلوک بچوں انس اور سلیمان کے اہل خانہ سے انہوں نے ملاقات کی۔ انس کافی مشین چلا کر گھر کے خرچ میں ہاتھ بنٹاتا تھا۔ ہنگامہ کے وقت وہ گھر کے باہر اپنے والد کے ساتھ کھڑا تھا جب اس نے والد سے کہا کہ وہ دودھ لے کر 5 منٹ میں آتا ہے۔ والد نے کہا کہ ابھی ہنگامہ ہو رہا ہے مت جاؤ، لیکن 5 منٹ میں واپس آنے کی بات کہہ کے وہ چلا گیا۔ والد 10 منٹ تک انتظار کرتے رہے پھر ایک شخص نے انھیں انس کی ہلاکت کی خبر دی۔ والد اپنے بچے کو لے کر اسپتال گئے لیکن کوئی مدد نہیں ملی۔ الٹے پولس نے والوں نے دھمکی دیتے ہوئے کوئی ایف آئی آر نہ کرنے کی بات کہی۔‘‘
مہلوک سلیمان کے اہل خانہ سے ملاقات کا تذکرہ کرتے ہوئے پرینکا گاندھی نے بتایا کہ ’’ 21 سالہ سلیمان یو پی ایس سی کی تیاری کر رہا تھا، بچوں کو ٹیوشن پڑھا کر اپنا خرچ بھی نکالتا تھا۔ اس کی طبیعت خراب تھی اس لیے گھر آیا تھا۔ شام میں وہ نماز پڑھنے مسجد گیا۔ گھر والوں کا کہنا ہے کہ وہاں سے پولس والوں نے اٹھایا اور بعد میں پتہ چلا کہ کچھ دوری پر ایک لڑکے کی لاش ملی ہے۔ اسے گولی سینے پر لگی ہوئی تھی جو آر پار تھی۔ پولس نے ان پر بھی دباؤ ڈالا کہ وہ ایف آئی آر نہ کریں۔ شام کے وقت گھر پر پولس آئی اور دھمکایا گیا کہ کسی طرح کی کوئی کارروائی کی تو دھیان رکھنا۔‘‘
پرینکا گاندھی نے کہا کہ گورنر کے پاس بھیجے گئے تفصیلی دستاویزات میں اس طرح کے کئی واقعات کا تذکرہ ہے۔ انھوں نے پریس کانفرنس میں سابق آئی پی ایس داراپوری اور کانگریس لیڈر صدف جعفر کا بھی تذکرہ کیا جنھیں پولس نے ان 48 گرفتار لوگوں کی فہرست میں ڈال رکھا ہے جن پر سنگین الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’داراپوری نے شہریت قانون کے خلاف سوشل میڈیا پر پوسٹ ڈالا اور ایک پوسٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ احتجاجی مظاہرہ جو بھی کر رہے ہیں وہ پرامن انداز میں کریں۔ لیکن 77 سال کے ضعیف داراپوری کو ان کے گھر جا کر پولس نے گرفتار کر لیا اور ان کی 75 سالہ بیوی بیمار گھبرا رہی ہے کہ نہ جانے آگے کیا ہوگا۔‘‘ صدف جعفر کی گرفتاری کا تذکرہ کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’’صدف کا گناہ کیا تھا؟ وہ تو صرف احتجاجی مظاہرہ کے دوران ہو رہے تشدد کا ویڈیو بنا رہی تھی جب انھیں گرفتار کر لیا گیا ۔ انھیں دیکھنے والا کوئی رشتہ دار بھی نہیں کیونکہ وہ لوگ الگ رہتے ہیں۔ سبھی عزیز پریشان حال ہیں۔‘‘
پریس کانفرنس میں پرینکا گاندھی نے گورنر آنندی بین پٹیل کو لکھی گئی چٹھی میں درج چار مطالبات کا بھی تذکرہ کیا۔ انھوں نے کہا کہ ہم نے مطالبہ کیا ہے کہ ’’1. اتر پردیش حکومت کے محکمہ داخلہ اور پولس و حکومت کے ذریعہ ہو رہی غیر قانونی اور مجرمانہ کارروائی کو فوری طور پر روکا جائے۔ 2. موجودہ ہائی کورٹ جج کی نگرانی میں پرامن مظاہرہ کر رہے لوگوں کی گرفتاری کی غیر جانبدارانہ جانچ کی جائے تاکہ بے قصور لوگوں کو انصاف ملے۔ 3. عدالتی کارروائی پوری کیے بغیر ملکیت کو سیل کرنے اور ضبط کرنے و دیگر کارروائی پر فوری طور پر روک لگائی جائے۔ 4. پرامن مظاہرہ کرنے والے طلبا کے خلاف کسی بھی طرح کی قانونی کارروائی نہ کی جائے کیونکہ وہ بے قصور ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔