یو پی میں سچ بولنا گناہ، یوگی پر این ایس اے لگانے والا افسر معطل
جسویر سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ ایک آئی پی ایس افسر ہیں، اصولوں سے سمجھوتا نہیں کرسکتا۔ اسی لئے ایک فرقہ وارانہ فساد کے دوران یوگی آدتیہ ناتھ کا کردار مشکوک تھا، لہذا ان پر این ایس اے کے تحت کارروائی کی۔
لکھنؤ: اتر پردیش حکومت نے خاموشی سے اے ڈی جی پی (ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولس) رولس اینڈ مینول سردار جسویر سنگھ کو معطل کر دیا ہے۔ گزشتہ 30 جنوری کو ایک میڈیا ادارے کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے اپنا درد بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ سیاسی جماعتوں نے انہیں کھلونا بنا کر رکھ دیا ہے۔
سال 1992 بیچ کے آئی پی ایس سردار جسویر سنگھ اتر پردیش پولس میں نہایت ہی ایماندار اور سیاسی دباؤ کے سامنے کبھی نہ جھکنے والے افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سال 2002 میں مہاراج گنج کے ایس پی رہتے وقت انہوں نے یوگی آدتیہ ناتھ پر این ایس اے (قومی سلامتی قانون) کے تحت کارروائی کی تھی، اس کے بعد ان کا تبادلہ کر دیا گیا تھا۔ اس وقت یوگی آدتیہ ناتھ گورکھپور سے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ تھے۔
ایک انٹرویو کے دوران سردار جسویر سنگھ نے بتایا کہ وہ ایک آئی پی ایس افسر ہیں، اپنے اصولوں سے سمجھوتا نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کہا، ’’ایک فرقہ وارانہ فساد کے دوران یوگی آدتیہ ناتھ کا کردار مشکوک تھا، لہذا ان پر این ایس اے کے تحت کارروائی کی۔‘‘ پنجاب کے ہوشیار پور کے رہنے والے جسویر سنگھ نے ہی راجہ بھیا کو گرفتار کرنے کی جرأت کا مظاہرہ کیا تھا۔ جسویر سنگھ کو اپنی ایمانداری کی لگاتار سزا بھگتنی پڑی ہے۔
انہیں ڈیڑھ درجن سے زیادہ تفیتشوں میں الجھا دیا گیا، ایس پی، بی ایس پی یا بھی بی جے پی ہر ایک کی حکومت کے دوران ان کا استحصال ہوا۔ 2007 میں جب جسویر سنگھ مظفرنگر کے ایس ایس پی تھے تو انہوں نے مبینہ طور پر اس وقت کی وزیر اعلیٰ مایاوتی کی سفارش والے تھانیداروں کو من پسند پوسٹنگ دینے سے انکار کر دیا تھا، اس کے بعد انہیں ہٹا دیا گیا تھا۔
پرتاپ گڑھ کا ایس پی رہتے وقت راجہ بھیا کو گرفتار کر نے کے بعد مایاوتی کی آنکھ کا تارا بنے جسویر سنگھ نے انہیں کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ ملائم سنگھ یادو کے وزیر اعلیٰ رہتے وقت بھی جسویر سنگھ کو غیر ضروری پوسٹنگ ملی۔ انہوں نے رہنماؤں کی جی حضوری نہیں کی اس لئے وہ لگاتار استحصال کے شکار ہوتے رہے۔
اکھلیش یادو کے وزیر اعلیٰ کے دور میں وہ زیادہ تر وقت تعلیمی سلسلہ میں تعطیل پر رہے۔ اتر پردیش میں اقتدار تبدیل ہونے کے ساتھ وہ لوٹے اور اے ڈی جی پی ہوم گارڈ مقرر کیے گئے۔
اس کے بعد انہوں نے اپنے ہی ڈی جی پی سوریہ کمار شکلا اور صوبے کے کابینہ وزیر برائے ہوم گارڈ انل راج بھر کے خلاف محاذ کھول دیا۔ جسویر سنگھ نے حکومت کو ایک خط لکھا جس نے ہوم گارڈ کے محکمہ میں ہو رہی بد عنوانی کا پردہ فاش کیا گیا تھا۔ اس خط سے محکمہ میں سنسنی پھیل گئی، جسویر سنگھ نے اس خط میں ہوم گارڈ کی ڈیوٹی رشوت لے کر لگائے جانے اور ان کا استعمال ذاتی ملازموں کی طرح کیے جانے سمیت کئی الزامات عائد کیے تھے۔
جسویر نے براہ راست طور پر یوگی کے وزیر انل راج بھر اور ڈی جی پی سوریہ پرکاش شکلا پر نشانہ لگایا تھا، جس کے بعد آناً فاناً میں جسویر سنگھ کو چھٹی کے روز جبراً عہدے سے دستبردار کر دیا گیا۔
اس کے بعد جسویر سنگھ کو لکھنؤ میں اے ڈی جی پی رولس اینڈ مینول کے طور پر تعیناتی دی گئی۔ جہاں ایک بہت چھوٹے سے کمرے میں کتابوں کے ڈھیر کے درمیان صرف قانون کی کتابیں پڑھنے کا کام دیا گیا۔ تعلیمی چھٹیوں پر جسویر سنگھ نے ایل ایل ایم کی پڑھائی کی تھی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ غیر شادی شدہ جسویر سنگھ کے والد آرمی میں لانس نائک رہے ہیں۔ لکھنؤ میں وہ اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں۔ جسویر سنگھ کو قاتلانہ حملے کی دھمکی کے پیش نظر وائی زمرے کی سکیورٹی ملی ہوئی تھی جو گزشتہ کچھ سالوں سے ہٹالی گئی تھی۔
اتر پردیش حکومت نے گزشتہ ہفتہ ایک نجی ویب سائٹ کو انٹرویو دیئے جانے پر ان سے وضاحت طلب کی تھی۔ انہوں نے حکومت کو جواب نہیں دیا، جس کے بعد انہیں معطل کر دیا گیا۔ ان پر سروسز مینول کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا۔ حکومت کی طرف سے جسویر سنگھ کے پاس ان کی معطلی کے خط کو پوشیدہ طریقہ سے بھیجا گیا۔ فی الحال جسویر سنگھ اپنی بیمار والدہ کا علاج کرا رہے ہیں اور رد عمل ظاہر کرنے کے لئے دستیاب نہیں ہو سکے۔ حکومت کے افسران بھی اس معاملہ پر کچھ بھی کہنے سے بچ رہے ہیں۔
جسویر سنگھ 2008 میں اپنی املاک کو عوامی کرنے والے پہلے آئی پی ایس بھی بنے تھے۔ وہ ایک اینٹی کرپشن تنظیم کا بھی حصہ رہے۔ جسویر سنگھ کھلے پلیٹ فارم سے حکومت کی بدعنوانی پر بولتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ وزیر اعلیٰ کو ایماندار نہیں بلکہ لفافہ والے ایس پی زیادہ پسند ہیں۔
کالے دھن کے خلاف جسویر سنگھ پٹیشن دائر کرنے کے لئے بھی مشہور ہیں۔ انہوں نے ٹول کی بدعنوانی کے خلاف بھی آواز اٹھائی تھی۔ ان کا پروموشن دو مرتبہ روک دیا گیا۔ دو مرتبہ ان پر قاتلانہ حملے ہوئے۔ وہ کھلے پلیٹ فارم سے راجہ بھیا جیسے لوگوں کو غنڈہ تک کہہ دیتے ہیں۔
ریٹائرڈ ڈی ایس پی جے آر جوشی کے مطابق جسویر سنگھ ایک مثالی پولس افسر ہیں، انہوں نے پولس کے اندر رہ کر پولس کی بدعنوانی کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت کی ہے۔
جسویر سنگھ کے مطابق ’’میری فائل پر پانچ مرتبہ لکھا گیا کہ مجھے اس وجہ سے معطل کیا جاتا ہے کیونکہ میرا ذہنی توازن ٹھیک نہیں ہے لیکن میں ایمانداری سے کام کرنا چاہتا ہوں۔ میں لگاتار محکمہ پولس میں سیاسی پشت پناہی سے پیدا ہوئی بدعنوانی کے خلاف بولتا رہوں گا۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔