واہ یوگی کے خادم! ٹوپی پہن نہیں رہے تو کم از کم چھو ہی لیجئے
اتر پردیش کے سنت کبیر نگر میں کبیر کے مزار پر خادم نے یوگی جی کی طرف ٹوپی بڑھائی جسے انھوں نےپہننے سے انکار کر دیا پھر خادم نے ان سے ٹوپی چھونے کی اس طرح گزارش کی جیسے وہ انسان نہیں بھگوان ہوں۔
آج وزیر اعظم نریندر مودی نے اتر پردیش واقع سنت کبیر کے مزار پر چادر چڑھائی لیکن اس سے قبل 27 جون کو اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اس مزار کا جائزہ لیا تھا۔ اس جائزہ کے دوران کا ایک دلچسپ ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں مزار کا خادم ان کی طرف ٹوپی بڑھاتا ہے جسے وہ پہننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ ٹوپی پہننے سے انکار کرنے کے باوجود خادم ان کے پاس ٹوپی لے کر کھڑا رہتا ہے اور کچھ کہتا ہے، جس کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ ٹوپی کو دونوں ہاتھوں سے چھوتے ہیں اور پھر خادم اس ٹوپی کو کنارے رکھ دیتا ہے۔ خادم کے انداز سے پتہ چلتا ہے جیسے وہ وزیر اعلیٰ سے کہہ رہا ہو کہ ’جناب ٹوپی مت پہنیے لیکن اپنے دستِ مبارک سے اسے مس ضرور کر دیجیے‘۔
اس ویڈیو کو دیکھ کر اس بات پر تو کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ یوگی آدتیہ ناتھ نے ٹوپی پہننے سے انکار کر دیا، لیکن افسوس یہ دیکھ کر ضرور ہواہے کہ اس خادم نے ’ٹوپی‘ کو بے عزت کرنے کا کوئی موقع نہیں چھوڑا۔ یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ یوگی جی مسلمانوں سے کتنی نفرت کرتے ہیں اور کسی بھی ایسی چیز کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں جس کا تعلق اسلام یا اسلام کے ماننے والوں سے ہو۔ اس بات کو پورا ہندوستان جانتا ہے، پھر خادم کو کیا ضرورت تھی کہ ان سے ٹوپی پہننے یا ہاتھوں سے چھونے کی گزارش کرے۔
اس ویڈیو میں ایک دلچسپ بات اور دیکھنے کو ملتی ہے، اور وہ یہ کہ جو ٹوپی یوگی آدتیہ ناتھ کو پہننے کے لیے بڑھائی جاتی ہے اس کا رنگ بھگوا ہے۔ اب یہ بات تو تحقیق کرنے والی ہے کہ وزیر اعلیٰ کے لیے خاص کر بھگوا رنگ کی ٹوپی منگائی گئی تھی یا پھر یہ ایک اتفاق تھا۔ ویسے وہاں موجود جن لوگوں نے ٹوپی پہن رکھی تھی اس ٹوپی کا رنگ بھی بھگوا ہی نظر آ رہا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ ہندوتوا کو فروغ دینے والے لیڈروں کے ذریعہ مسلمانوں کی روایتی ٹوپی پہننے سے انکار کرنے کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ایک بار ایسا ہی کیا تھا اور ایک تقریب کے دوران جب انھیں ایک مولانا نے روایتی ٹوپی پہننے کے لیے بڑھائی تھی تو ایسا کرنے سے وزیر اعظم نے واضح طور پر انکار کر دیا تھا۔ ان کا یہ عمل کئی دنوں تک سرخیوں میں رہا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔