کورونا کا ایکس ای ویریئنٹ: وائرولوجسٹ گگن دیپ نے کہا ’زیادہ خطرناک نہیں لگتا، لیکن...‘

گگن دیپ کانگ نے ممبئی میں ’ایکس ای ویریئنٹ‘ کی دریافت کے بارے میں کہا کہ ’’ہم سنگین بیماریوں کے بارے میں زیادہ فکرمند ہیں، اور اگر ایسا نہیں ہو رہا تو مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اسے ٹریک کرنا چاہیے۔‘‘

کورونا ٹسٹ، تصویر آئی اے این ایس
کورونا ٹسٹ، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

ہندوستان کے سرکردہ وائرولوجسٹ میں سے ایک گنگن دیپ کانگ کا کہنا ہے کہ ہم اب تک کووڈ-19 کے ’ایکس ای‘ ویریئنٹ کے بارے میں جو جانتے ہیں، اس سے ایسا نہیں لگتا کہ فکر کی کوئی بات ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ ویریئنٹ تھوڑا تیزی سے پھیلتا ہے، لیکن یہ زیادہ سنگین بیماری کا سبب نہیں لگتا ہے۔ کانگ نے ممبئی میں ’ایکس ای ویریئنٹ‘ کی دریافت کے بارے میں کہا کہ ’’ہم سنگین بیماریوں کے بارے میں زیادہ فکرمند ہیں، اور اگر ایسا نہیں ہو رہا تو مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اسے ٹریک کرنا چاہیے۔ لیکن اس کے بارے میں زیادہ فکر نہ کریں۔‘‘

حالانکہ ’انساکوگ‘ نے ایکس ایک ویریئنٹ کا پتہ لگانے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ویریئنٹ ’ایکس ای‘ ویریئنٹ کی جینومک تصویر سے متعلق نہیں ہے۔ انساکوگ ہندوستان میں وزارت برائے صحت و خاندانی فلاح کے تحت قائم پلیٹ فارم ہے جو کووڈ-19 کے گردش کرنے والے اسٹرینس کے جینوم سیکوئنسنگ اور وائرس کے تغیر کا مطالعہ و نگرانی کرتا ہے۔


خبر رساں ایجنسی آئی اے این ایس سے بات کرتے ہوئے کانگ نے کہا کہ انساکوگ کا کہنا ہے کہ اگر یہ واقعی ’ایکس ای‘ ہے، پھر بھی ہمیں اس کے بارے میں فکرمند نہیں ہونا چاہیے۔ انھوں نے زور دے کر کہا کہ جب بھی ہم ایک نیا ویریئنٹ دیکھتے ہیں تو اہم بات یہ ہے کہ ملک کے لیے اس کے کیا اثرات ہیں؟ کیا ہی ایک نئی لہر شروع کرنے جا رہا ہے؟ کیا لوگ سنگین طور پر بیمار پڑنے والے ہیں؟ وغیرہ۔

اومیکرون کے مقابلے میں ایکس ای ویریئنٹ میں 10 فیصد سے زیادہ ٹرانسمیشن صلاحیت کا دعویٰ کرنے والی رپورٹوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کانگ نے کہا کہ یہ برطانیہ کے ریزلٹ ہیں کیونکہ وہ بہت ساری سیکوئنسنگ کرتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔