گھنٹہ گھر: خواتین CAA کے لیے مر تو سکتی ہیں مگر پیچھے نہیں ہٹیں گی... عظمیٰ
حاجی حسن احمد نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت میں کہا کہ تمام شہری سی اے اے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اس لئے حکومت کوسمجھنا چاہیے کہ یہ تحریک رکنے والی نہیں ہے جب تک متنازعہ قانون واپس نہیں لے لیا جاتا ہے۔
(لکھنؤ سے نواب علی اختر کی خصوصی رپورٹ)
قومی شہریت (ترمیمی) قانون (سی اے اے)، قومی شہری رجسٹر(این آر سی) اور قومی آبادی رجسٹر (این پی آر) کے خلاف دہلی کے شاہین باغ سے شروع ہوا دھرنا اور مظاہرہ اب ملک گیر تحریک کی شکل اختیارکرچکا ہے۔ متنازعہ قانون کے خلاف ملک بھرمیں جاری احتجاجی مظاہروں کی خاص بات یہ ہے کہ اس کا نہ تو کوئی منتظم ہے اور نہ ہی کوئی سرپرست ہے بلکہ حکومت کے جبرو استبداد اور ظلم وجور کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک گیرتحریک کی کمان صنف نازک نے بڑی مضبوطی سے اپنے ’کمزور‘ ہاتھوں میں سنبھال رکھی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تحریک کا نہ توکوئی لیڈر ہے اور نہ ہی کوئی رہبر، صرف اورصرف خواتین ہیں جونام ونمود اور کسی طرح کی تشہیر کی لالچ کے بغیرمظاہرے کو منظم اور مستحکم رکھنے کو ’خدمت‘ کے طور پر انجام دے رہی ہیں۔
ملک کے عوام پرحکومت کی جانب سے جبراًمسلط کیے جا رہے قانون کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے درمیان آج ہندوستان کے 71 ویں یوم جمہوریہ کے موقع پرعام طور پر یقیناً تمام محبان وطن نے قومی پرچم پھہرائے ہوں گے مگر اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ کے تاریخی مقام گھنٹہ گھر پر پھہرایا جانے والا جھنڈا اپنے آپ میں تاریخی ثابت ہوا۔ یہاں معصوم بچوں کے ساتھ تحریک کار ہزاروں خواتین کے درمیان پھہرایا گیا، ترنگا قومی جذبات اور احساسات سے سرشار تھا کیونکہ یہاں خواتین مظاہرین نے ترنگا پھہرا کر وطن عزیزکو جذباتی سلام پیش کیا اور اس کی حفاظت کاحلف لیا۔ اس موقع پرسماج کے ہرطبقہ اور عمر کے لوگ موجود تھے۔ دھرنے کے چاروں طرف لاتعداد خواتین جمع ہیں اور گھنٹہ گھرکی چہاردیواری کے باہر نوجوان رضاکار خواتین کے لئے راستے ہموار کرنے میں مصروف ہیں جب کہ مصروف ترین شاہراہ پرراہ گیروں کو پریشانی سے بچانے کے لئے پولس اہلکار نہیں بلکہ دھرنے میں تعاون دینے والے نوجوان ٹریفک نظام سنبھالے ہوئے ہیں۔
گھنٹہ گھر پر خواتین کی آمد کا کبھی نہ رکنے والا سلسلہ جاری ہے۔ لکھنؤ اورقرب وجوار سے آنے والی خواتین اور بچے پوری طرح ترنگے میں لپٹے نظر آرہے ہیں۔ نقاب پوش خواتین پیشانی پرترنگا پٹی، کلائی میں سہ رنگی چوڑیاں، ہاتھوں میں ترنگا لئے ’ہندوستان زندہ باد، آئین زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہی ہیں۔ ان خواتین کو نہ تو سردی کا احساس ہے اور نہ ہی بھوک پیاس کی حاجت، انہیں بس سی اے اے، این آرسی اور این پی آرکے ’مظالم‘ کا احساس ہے۔ حیرت انگیزبات یہ ہے کہ تحریک کارخواتین کے ساتھ ان کے افراد خانہ بھی برابر کے شریک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ دنیا کی تقریباً پہلی ایسی تحریک بن چکی ہے جو انتہائی کامیاب ثابت ہو رہی ہے۔ جوخواتین اس احتجاج میں شریک ہیں ان کے شوہر، بھائی، بیٹے اور دیگررشتہ دار دور کھڑے ہوکر اپناخاموش تعاون دے رہے ہیں۔
مجموعی طورسے دیکھا جائے تو شہر ادب کے طور پرمشہور لکھنؤ میں گزشتہ 10 روز سے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک کا محور ومرکز بنا ہوا ہے۔ گھنٹہ گھرکے چاروں طرف خواتین کے سر ہی سرنظر آرہے ہیں۔ یہاں ہر وقت حب الوطنی پر مبنی گیت اور نظم کے درمیان ’انقلاب زندہ باد‘ کے فلک شگاف نعرے حکومت اور انتظامیہ کے درو دیوار سے ٹکرا رہے ہیں اور وقت ہونے پر خواتین جماعت کے ساتھ نماز بھی ادا کر رہی ہیں۔ مظاہرے میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہرمذہب کی خواتین حصہ لے رہی ہیں اور تاریخی اندازمیں احتجاج کو آگے بڑھاتے ہوئے دنیا کو اپنی ہمت اور بہادری کا احساس کرا رہی ہیں۔ موقع پرموجود کچھ مقامی لوگوں نے کہا کہ لکھنؤکی تاریخ میں یہ پہلا مظاہرہ ہے جو خواتین کر رہی ہیں اور جو انتہائی کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔
اس سلسلے میں اپنے بچے کو پیٹ پر باندھ کرشروع سے مظاہرے کا حصہ رہی رانی لکشمی بائی کے نام سے مشہور ہوچکیں عظمیٰ نے ’قومی آواز‘ سے کہا کہ یہ لڑائی ہمارے گھر یا رشتہ دار کی نہیں ہے بلکہ یہ ملک اورآئین کے تحفظ کی لڑائی ہے اس لئے حکومت کے مظالم کے سامنے ہم لوگ جھکنے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ لائٹ کاٹ دے یا انٹرنیٹ بند کردے پھر بھی ہمارے حوصلے پست نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ پولس نے اس دھرنے کوختم کرانے کے لئے ہر کوشش کرچکی ہے مگر اسے منہ کی کھانی پڑی ہے اس لئے اب ملک کے وزیراعظم نریندرمودی اوران کے جوڑی دار وزیر داخلہ امت شاہ کوسمجھ لینا چاہیے کہ تحریک کار خواتین سی اے اے کو ہٹوانے کے لیے مر توسکتی ہیں مگر پیچھے نہیں ہٹیں گی۔ عظمیٰ نے کہا کہ متنازعہ قانون کوجب تک واپس نہیں لیا جائے گا تب تک ہم اسی طرح شدید سردی میں کھلے آسمان کے نیچے بغیرلائٹ کے بیٹھے رہیں گے۔
خواتین کے دھرنے کے باہرموجود حاجی حسن احمد نے ’قومی آواز‘ سے بات چیت میں کہا کہ تمام شہری سی اے اے کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اس لئے حکومت کوسمجھ لینا چاہیے کہ یہ تحریک اس وقت تک رکنے والی نہیں ہے جب تک متنازعہ قانون واپس نہیں لے لیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت مظاہرین کے مطالبات پردھیان دے کہیں ایسانہ ہو کہ لکھنؤ کا گھنٹہ گھر اور دہلی کا شاہین باغ تحریراسکوائر نہ بن جائے۔ حسن احمد نے مزید کہا کہ مظاہرے کا آج 10واں دن ہے اور میں روز اول سے یہاں موجود ہوں۔ اس دوران میں نے خواتین کے جذبات کو دیکھا ہے،ان کی آنکھوں اور آواز سے صاف نظر آرہا ہے کہ یہ تحریک ملک میں انقلاب برپا کردے گی۔
دھرنے میں ہر روزمعروف شخصیات شرکت کر رہی ہیں۔ آج یہاں آنے والوں میں ٹیلے والی مسجد کے امام مولانا فضل المنان، شہرقاضی مولانا ابوالعرفان فرنگی محلی، شاعرعمران پرتاپ گڑھی، سپریم کورٹ کے معروف وکیل ظفریاب جیلانی قابل ذکر ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 26 Jan 2020, 9:30 PM