شوہر کی غیر موجودگی میں بیوی کو سسرال میں رہنے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا: الٰہ آباد ہائی کورٹ
محمد ہاشم کی طرف سے بہو کو سسرال میں آ کر رہنے کا حکم دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے عرضی عدالت میں داخل کی گئی تھی، اس پر الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ بہو کے حق میں سنایا۔
الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے آج سسر کے ذریعہ داخل اس عرضی کو خارج کر دیا جس میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ بہو کو سسرال میں رہنے کی ہدایت دی جائے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ شوہر کی غیر موجودگی میں ساس-سسر اپنی بہو کو سسرال آ کر رہنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے۔ یعنی شوہر کی غیر موجودگی میں ضروری نہیں کہ بیوی سسرال میں ہی رہے۔
دراصل محمد ہاشم کی طرف سے بہو کو سسرال میں آ کر رہنے کا حکم دینے کا مطالبہ کرتے ہوئے عرضی عدالت میں داخل کی گئی تھی۔ اس پر الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے فیصلہ بہو کے حق میں سنایا۔ محمد ہاشم نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ گزشتہ دو سال سے بہو کو اس کے والدین نے یرغمال بنا کر مائیکہ میں رکھا ہوا ہے۔ عرضی دہندہ نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ ان کا بیٹا کویت میں ملازمت کرتا ہے۔
محمد ہاشم کی عرضی پر لکھنؤ بنچ میں جسٹس شمیم احمد نے سماعت کی۔ انھوں نے اپنے فیصلے میں کہا کہ شوہر کی غیر موجودگی میں ساس-سسر اپنی بہو کو سسرال میں آ کر رہنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے۔ چونکہ مسلم قانون کے تحت شادی ایک معاہدہ ہے اور اس میں بیوی کی حفاظت، اس کی ضرورتوں کو پوری کرنے کی ذمہ داری شوہر کی ہے، اس لیے بیٹے کے پیچھے میں ساس-سسر کسی چیز کے لیے بہو کو مجبور نہیں کر سکتے۔
جسٹس شمیم احمد کی سنگل بنچ نے واضح لفظوں میں کہا کہ شادی کے بعد شوہر کویت میں کما رہا ہے اور بیوی اپنے والدین کے ساتھ رہ رہی ہے، تو ایسے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ لڑکی یرغمال بنائی گئی ہے۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ ممکن ہے شوہر کی غیر موجودگی میں بیوی سسرال میں رہنا پسند نہیں کرتی ہو۔ ساتھ ہی لکھنؤ بنچ نے کہا کہ اگر اس معاملے میں کوئی شکایت ہے بھی تو اسے شوہر ہی متعلقہ فورم پر درج کرا سکتا ہے۔ سسر یا کوئی دیگر شخص کی شکایت اہمیت نہیں رکھتی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔