آخر آج کیوں ضروری ہے پنڈت جواہر لال نہرو کو یاد کرنا!
آج ہم نہرو کو ایک ایسے دور میں یاد کر رہے ہیں جب ان سبھی اقدار پر خطرہ منڈلا رہا ہے جن کے لیے انھوں نے جدوجہد کی اور جن کی بنیاد پر ہندوستان نامی ملک کا وجود عمل میں آیا اور اس کی ترقی ہوئی۔
ایک فاشسٹ دور کی یاد دلانے والے ایک وسیع پروپیگنڈا سسٹم کا استعمال کر کے آج پنڈت نہرو کو بدنام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جن کے بارے میں لگاتار گالی گلوچ اور جھوٹ کو دہرایا جا رہا ہے۔ پنڈت نہرو کو ہندوستان میں سبھی برائیوں، معاشی پسماندگی، غریبی، صحت اور تعلیم کی کمی، زرعی شعبہ کی پسماندگی، کشمیر اور چین کے مسائل، فرقہ واریت میں اضافہ اور یہاں تک کے ہندوستان کی تقسیم تک کے لیے ذمہ دار ٹھہرایا جا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نہرو تو درحقیقت ایک مسلمان تھے، جیسے کہ مسلمان ہونا ہی ان کے لیے آخری داغ ہوگا۔ کیرالہ کے ایک بی جے پی لیڈر نے تو آر ایس ایس کے رسالہ ’کیسری‘ میں یہاں تک لکھ ڈالا کہ گوڈسے کو گاندھی کی جگہ نہرو پر گولیاں چلانی چاہیے تھیں۔
یہاں تک کہ برطانوی نو آبادیاتی حکام نے بھی، جن سے لڑتے ہوئے نہرو نے اپنی زندگی کے 30 سال گزارے، ان میں سے 9 سال تو جیل میں تھے (یہ ایک ایسا سچ ہے جسے بہت آسانی سے نظر انداز کر بھلا دیا گیا ہے)، ان پر اس طرح سے حملہ نہیں کیا جتنا کہ آج کی وہ مذہبی فرقہ پرست طاقتیں ان پر حملہ کرتی ہیں جو ہندوستانی قومی تحریک کو روکنے میں انگریزوں کے ساتھ تھیں۔
ہمیں آج اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ اگر نہرو میں اتنی ہی برائیاں تھیں تو پھر مہاتما گاندھی (سبھاش چندر بوس باپو کو اسی نام سے بلاتے تھے) نے انھیں اپنے جانشیں کے طور پر کیوں چنا؟
25 جنوری 1942 کو اکھل بھارتیہ کانگریس کمیٹی میں دی گئی ایک تقریر میں گاندھی جی نے اعلان کیا تھا ’’...کسی نے مشورہ دیا کہ... میرے اور نہرو کے درمیان نااتفاقیاں ہیں اور ہم الگ ہو گئے ہیں، یہ بالکل بے بنیاد ہے... آپ پانی کو لاٹھی مار کر الگ نہیں کر سکتے، ہمیں الگ کرنا اتنا ہی مشکل ہے...۔‘‘ (یہ اس پروپیگنڈا مشینری کے لیے ایک کھلی تنبیہ ہے جو آج گاندھی، نہرو، بوس، پٹیل، بھگت سنگھ، مولانا آزاد جیسی ہماری قومی تحریک کے لیڈروں کے درمیان نااتفاقی پیدا کرنے اور دلائل کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے)۔ گاندھی جی نے آگے کہا تھا ’’میں نے ہمیشہ کہا ہے کہ نہ راجہ جی، نہ سردار ولبھ بھائی، بلکہ جواہر لال میرے جانشیں ہوں گے...۔ جب میں چلا جاؤں گا... وہ میری زبان بھی بولے گا۔ اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو کم از کم میں تو اسی یقین کے ساتھ مر جاتا۔‘‘
آخر گاندھی جی کو پنڈت نہرو پر اتنا یقین کیوں تھا؟ پہلی بات یہ کیونکہ نہرو نے ہندوستانی قومی تحریک کے سبھی بنیادی اقدار کی نمائندگی کی اور ان کے لیے لڑائی لڑی، جسے ٹیگور نے ’ہندوستان کا نظریہ‘ کہا تھا۔ ان میں ملک کی سالمیت اور خود انحصاری کے اقدار، جمہوریت، سیکولرزم، ایک غریب حامی سمت بندی اور ایک جدید سائنسی روش کا مرکب تھا۔ دوسری بات یہ کیونکہ نہرو کو ہندوستان کے نظریات کو اس نوزائیدہ ملک میں نافذ کرنے میں سب سے اہل شخص کی شکل میں دیکھا گیا تھا، جس کی نئی پیدائش ہونے والی تھی۔ یہ ایک ایسا کام تھا جسے نہرو نے وزیر اعظم کی شکل میں آزادی کے بعد کے پہلے 17 سالوں تک بڑے وقار کے ساتھ انجام دیا۔
آج اسی ہندوستان کے نظریات پر خطرہ ہے، تو ہم نہرو سے کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں؟
ہندوستانی نظریات کے لیے سب سے بڑا چیلنج آزادی کے ساتھ ہی سامنے آیا، جب تقسیم کے پہلے اور بعد میں مذہبی فرقہ وارانہ فسادات کے سبب تباہی جیسے حالات پیدا ہوئے جس میں لاکھوں لوگوں کی جان گئی اور لاکھوں لوگ پناہ گزیں بن گئے۔ اس سے بھی بڑی آفت یہ آئی کہ ہندو فرقہ پرست طاقتوں نے گاندھی جی کا قتل کر دیا۔ اس قتل کو نہرو نے صاف طور پر ایک ملک کی نوعیت بدلنے کی کوشش کے طور پر دیکھا۔ جیسا کہ پنڈت نہرو نے 5 فروری 1948 کو وزرائے اعلیٰ کو لکھا تھا ’’...قصداً تختہ پلٹ کا ایک منصوبہ بنایا گیا تھا جس میں کئی اشخاص کا قتل کر عام نظام کو فروغ دینا شامل تھا تاکہ ایک خاص گروپ کو اقتدار پر قبضہ کرنے میں اہل بنایا جا سکے۔‘‘ ہندوستان کو ایک ’مسلم پاکستان‘ عکس کے طور پر ’ہندو بھارت‘ کی شبیہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ہمارے نیشنلسٹ لیڈر ایسا نہیں ہونے دینے والے تھے۔ نہرو نے سردار پٹیل کی مکمل حمایت سے آر ایس ایس پر پابندی لگا دی تھی اور اس کے 25 ہزار کارکنان کو جیل میں ڈال دیا۔ انھوں نے تشدد کو روکنے اور مذہبی طبقات کے درمیان امن بحال کرنے کے لیے اپنی جان کی بازی لگا دی۔
یہ بات بھی جاننا سمجھنا ضروری ہے کہ پنڈت نہرو نے 52-1951 کے عام انتخابات کو اس بات کے صاف مینڈیٹ میں بدل دیا تھا کہ لوگ ایک سیکولر ہندوستان کے حق میں ہے یا پھر ’مسلم پاکستان‘ کی طرح ایک ’ہندو بھارت‘ کے حمایتی۔ انھوں نے کم از کم 40 ہزار کلومیٹر کا سفر کیا اور تقریباً 3.5 کروڑ لوگوں (ہر دسویں ہندوستانی کو) کو خطاب کیا اور ملک میں سیکولرزم کو فروغ دیا۔ نتائج اس ناطے بھی بہت ڈرامائی تھے کیونکہ اس سے پہلے ملک فرقہ وارانہ کشیدگی کا گواہ بنا تھا۔ ہندو فرقہ پرست پارٹی، ہندو مہا سبھا، جن سنگھ، رام راجیہ پریشد وغیرہ مل کر بھی صرف 6 فیصد ووٹ اور 489 میں سے صرف 10 لوک سبھا سیٹیں جیت پائے۔ یہ ایک بہت بڑی حصولیابی تھی۔ فرقہ پرستی سے متعلق چیلنج کو دہائیوں کے لیے شکست دے دی گئی تھی، لیکن بدقسمتی سے یہ ختم نہیں ہوئی تھی۔
اب جب فرقہ پرست طاقتیں پھر سے سر اٹھا کر کھڑی ہو گئی ہیں، تو نہرو کی تنبیہ کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ اکثریت فرقہ پرستی ’خود کو نیشنلسٹ کا چولا پہنا کر سامنے آ سکتی ہے‘ اور دراصل یہ ’فاشزم کا ہندوستانی ایڈیشن‘ ہے اور اس کے خلاف سخت محنت کی جانی چاہیے۔
ہندوستانی نظریات کے دوسرے عنصر جمہوریت پر بھی خطرہ گہرا چکا ہے۔ دنیا کے مشہور اداروں نے ڈیموکریسی انڈیکس (جمہوریت کی پیمائش والے انڈیکس) میں ہندوستان کی رینکنگ کو کم کر دیا گیا ہے اور ہندوستان کو ایک ’خامی والی جمہوریت‘ یا ’انتخابی آمریت‘ والے ملک کی شکل میں تذکرہ کیا ہے۔ اس معاملے میں بھی نہرو سے بہت کچھ سیکھنا ہے۔ نہرو کے لیے جمہوریت اور عوام کی آزادی پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا تھا۔ انھوں نے کہا تھا ’’میں کسی بھی چیز کے لیے جمہوری اصول کو قربان نہیں کروں گا۔‘‘ ان کے لیے جمہوریت کا مطلب تھا آزاد پریس جو سب سے بڑے افسر یا عہدہ پر بیٹھے کسی بھی شخص کی سخت سے سخت تنقید کر سکتی ہو۔ ان کے لیے جمہوریت کا مطلب تھا ایک مضبوط اپوزیشن کی حوصلہ افزائی اور اس کا احترام۔
1950 میں پنڈت نہرو نے اعلان کیا ’’میں ایک ایسا ہندوستان نہیں چاہتا جہاں لاکھوں لوگ کسی ایک شخص کے لیے ہاں بولیں۔ میں ایک مضبوط اپوزیشن چاہتا ہوں۔‘‘ ایک اور جگہ انھوں نے حال کے واقعات کا اندازہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’یہ اتنا بڑا ملک ہے جس میں تمام جائز تنوع ہیں جو کسی بھی مبینہ ’مضبوط شخص‘ کو لوگوں اور ان کے نظریات کو کچلنے کی اجازت نہیں دیتا۔‘‘
حاکمیت اور خود انحصاری کے ایشو پر نہرو کے عمل ان کے الفاظ جتنے ہی اہم تھے۔ انھیں اس بات میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ جب تک معاشی آزادی نہیں حاصل کر لی جاتی تب تک سیاسی آزادی کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ انھوں نے نہرو-مہالنوبس پالیسی اور عوامی شعبہ کا استعمال کر ہندوستان کو آزادی کے وقت کے ایک مجازی نوآبادیاتی حالات سے نکالا جب ہم سرمایہ داری پر مبنی سامانوں اور مشینری کے لیے خوشحال یا ترقی یافتہ ممالک پر تقریباً پوری طرح یعنی 100 فیصد منحصر تھے۔ اور ایسی حالت بنائی کہ 1960 تک ہم صرف 43 فیصد اور 1970 تک صرف 9 فیصد درآمدگی پر منحصر تھے۔ معاشی خود انحصاری کی سمت میں اس قدم نے ہندوستان کو ایک آزاد خارجہ پالیسی بنانے اور ناوابستہ تحریک میں 100 سے زائد ممالک کی قیادت کرنے میں اہل بنایا، جس نے کسی بھی سپر پاور کے آگے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کر دیا۔
زرعی شعبہ کو نظر انداز کرنا تو دور کی بات، نہرو نے تو اراضی اصلاح اور ضروری تکنیکی تبدیلی کر ہندوستان کو سبز انقلاب کے راستے پر گامزن کر مضبوط بنایا۔ انھیں معلوم تھا کہ فوڈ سیکورٹی کے بغیر سچی حاکمیت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ مشہور ماہر معاشیات ڈینل تھارنر نے اس جھوٹ کی دھجیاں اڑا دیں جس میں کہا جاتا ہے کہ ’’شروعاتی پنج سالہ منصوبوں میں زراعت کو نظر انداز کیا گیا۔‘‘ انھوں نے کہا کہ ’’سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے پہلے 21 سالوں میں زراعت میں تبدیلی کو فروغ دینے کے لیے مزید کہیں زیادہ کام کیا گیا ہے جو کہ گزشتہ 200 سالوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کام تھا۔‘‘
اتنا ہی نہیں، نہرو نے اس بات کو بھی سمجھ لیا تھا کہ سائنس اور تکنیک کے شعبہ میں خود انحصاری کے بغیر خود مختاری حاصل نہیں کی جا سکتی۔ یہ وہ شعبہ تھا جو نو آبادیاتی دور میں بالکل بنجر پڑا رہا تھا۔ علمی انقلاب کو محسوس کرتے ہوئے نہرو نے 1950 کی دہائی میں ہی آئی اائی ٹی، آئی آئی ایم، این پی ایل، این سی ایل، بارک، ایمس وغیرہ کے قیام کو یقینی بنایا۔ سچائی یہ ہے کہ آج ملک کا سروس سیکٹر سب سے بڑا سیکٹر ہے جو ملک کی جی ڈی پی میں نصف سے زیادہ کی شراکت داری رکھتا ہے، وہ صرف اس علمی انقلاب پر مبنی ہے جس کی شروعات جواہر لال نہرو نے کی تھی۔ اس شروعات کے سبب ہی ملک کے سائنسی نظریے میں اضافہ ہوا جسے آج منہدم کرنے کی کوششیں اعلیٰ عہدوں سے یہ دعویٰ کر کے کی جا رہی ہیں کہ پلاسٹک سرجری اور نیوکلیئر میزائل (ارجن کے جوہری تیر) دورِ قدیم سے ہی ہندوستان میں تھے اور کورونا کو تالی، تھالی، گوبر، گئو موتر اور گنگا اسنان سے بھگایا جا سکتا ہے۔
اور آخری بات، حالانکہ یہ آخری نہیں ہو سکتا، اپنے استاد مہاتما کی طرح ہی نہرو نے کبھی بھی غریبوں کی ترقی کا راستہ نہیں چھوڑا۔ انھوں نے اس بات کو 1952 میں کچھ اس طرح کہا تھا ’’اگر غریبی اور (زندگی کی) نچلی سطح جاری رہی تو اپنے شاندار اداروں اور اصولوں کے باوجود جمہوریت ایک ’مکتی شکتی‘ نہیں رہ جائے گا۔ اس لیے انسداد غریبی کا ہدف ہمیشہ سامنے رہنا چاہیے...۔‘‘ یہ وہ وراثت ہے جسے ہمیں ایسے وقت میں یاد کرنے کی ضرورت ہے جب ہندوستا ہنگر انڈیکس میں سب سے ذیلی پائیدان پر پہنچ گیا ہے۔ ہمارے نصف سے زیادہ بچے نقص تغذیہ کا شکار ہیں اور گنگا میں تیرتی لاشیں ہمیں یاد دلا رہی ہیں کہ غریبوں کے پاس اپنے رشتہ داروں کی آخری رسومات تک کے لیے سامان نہیں ہیں۔
ہندوستان کو اس حالت سے، جسے ٹیگور نے کہا تھا کہ انگریزوں کے ذریعہ چھوڑی گئی ’کیچڑ اور گندگی‘ (اس وقت 84 فیصد ملک ناخواندہ تھا اور آزادی کے وقت ہندوستانیوں کا عام زندگی محض 30 سال ہوا کرتا تھا)، سے نکالنے کے لیے نہرو نے شاندار کوششوں کو آج تب اور زیادہ یاد کرنے کی ضرورت ہے جب ہم ملک کو تاریکی میں گرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ بہت ہی نازک طریقے سے تیار کیے گئے سیکولر تانے بانے کو تہس نہس کر دیا گیا ہے، غریبوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا ہے اور ’بولنے اور گروپ بنانے کی آزادی‘ جو کہ ہماری قومی جنگ آزادی کی سب سے بڑی حصولیابیوں میں سے ایک تھی، اسے عوام سے تیزی کے ساتھ چھینا جا رہا ہے۔
(یہ مضمون پروفیسر مردولا مکھرجی اور پروفیسر آدتیہ مکھرجی کے ذریعہ لکھا گیا ہے۔ مردولا مکھرجی جے این یو میں جدید ہندوستانی تاریخ کی پروفیسر تھیں اور آدتیہ مکھرجی ہم عصر تاریخ کے پروفیسر تھے۔ اس مضمون میں پیش خیالات ان کے ذاتی ہیں۔)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔