مہلوک مظاہرین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کیوں نہیں دی جا رہی، کیا چھپا رہی یوپی پولیس؟

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ یوپی پولیس نے ابھی تک پیش نہیں کی ہے، پولیس آخر کیا چھپانا چاہتی ہے؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران ہلاک ہونے والے عمران کا بھائی محسن اپنے بھائی کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے لئے دو ہفتوں سے در در بھٹک رہا ہے۔ اسے ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملتا ہے، ’’کل آو! ابھی تک رپورٹ نہیں آئی ...‘‘

محسن نے فون پر بتایا کہ ’’مجھے سمجھ نہیں آ رہی ہے کہ پولیس پوسٹ مارٹم رپورٹ کیوں نہیں دے رہی ہے۔ کیوں اتنا وقت لگ رہا ہے اور کس کے لئے؟‘‘

محسن اکیلا نہیں ہے جو اس طرح کی پریشانی میں بھٹک رہا ہے۔ 20 دسمبر کو میرٹھ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران ہونے والے تشدد میں چار نوجوان ہلاک ہوئے تھے، ان سبھی کے اہل خانہ کا بھی کہنا ہے کہ پولیس جان بوجھ کر پوسٹ مارٹم رپورٹ دینے میں آناکانی کر رہی ہے۔

اسی تشدد میں آصف کی بھی موت ہوئی تھی۔ اس کے چچا نوشاد لگاتار پوسٹ مارٹم رپورٹ کے لئے میرٹھ کے لیساڑی گیٹ پولیس اسٹیشن کے چکر لگا رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں، ’’ان کا واحد جواب یہ ہے کہ ضلع اسپتال سے پوسٹ مارٹم رپورٹ ابھی تک نہیں آئی ہے۔‘‘ نوشاد نے بتایا کہ اس سلسلے میں انہوں نے مقامی رہنماؤں سے بھی اپیل کی لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا۔


کانگریس کے ایک مقامی رہنما زاہد انصاری نے بتایا کہ انہوں نے متاثرین کے اہل خانہ سے ملاقات کی ہے۔ ان کے بقول، ’’یہ خاندان خوف زدہ ہیں۔ زیادہ تر لوگ تھانے میں جانے سے ڈرتے ہیں۔ انہیں خدشہ ہے کہ انہیں بھی کسی جھوٹے مقدمے میں گرفتار نہ کر لیا جائے۔ لوگ اکیلے تو بالکل بھی تھانے میں نہیں جاتے۔ وہ گروپ کی شکل میں جاتے ہیں اور بعض اوقات پورا محلہ ان کے ساتھ ہوتا ہے تاکہ تنہا کسی کے خلاف مقدمہ نہ لکھ دیا جائے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ لوگ 20 دسمبر کو ہونے والے تشدد پر بات کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں کیونکہ انہیں شبہ ہے کہ پولیس کے ’جاسوس ‘عام لوگوں کی طرح ان کے درمیان آ سکتے ہیں!‘‘

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ پولیس دراصل پوسٹ مارٹم رپورٹ دینے میں ہچکچاہٹ محسوس کر رہی ہے کیونکہ تمام اموات گولیوں کے زخموں کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ ایسی صورتحال میں لوگ پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بنیاد پر پولیس کو عدالت میں گھسیٹ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ اتر پردیش کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس اب بھی اس بیان پر قائم ہیں کہ پولیس فائرنگ میں کوئی بھی ہلاک نہیں ہوا، حالانکہ بجنور اور میرٹھ کے پولیس کپتان یہ اعتراف کر چکے ہیں کہ پولیس فائرنگ میں دو افراد کی موت ہوئی ہے۔ دونوں کپتانوں کا دعویٰ ہے کہ پولیس نے اپنی دفاع میں فائرنگ کی۔


اس بارے میں بات کرتے ہوئے انیس احمد نامی وکیل نے کہا، ’’حقیقت کو چھپانے کی کوششیں ہو رہی ہیں لیکن ایک دن سچ سامنے آنا ہے۔ دیکھتے ہیں کہ پولیس پوسٹ مارٹم رپورٹ کو کب تک دباتی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ پولیس کے جھوٹ کا پردہ فاش کر دے گی۔‘‘ انیس احمد جمعیۃ علمائے ہند کے ممبر بھی ہیں اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف قانونی طور پر مظاہرین کی مدد کر رہے ہیں۔

دوسری طرف، پولیس افسر پرشانت کمار نے کہا کہ پولیس اپنی طرف سے تاخیر نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کا عمل جاری ہے۔ متاثرہ خاندانوں کو بھی اس عمل کو سمجھنا چاہئے۔ اگر کوئی پریشانی ہو تو وہ ایس ایس پی کے پاس جا سکتے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔