جج لویا معاملہ کی سماعت سے تین ججوں نے خود کو الگ کیوں کیا؟
ستیش اوئیکے نے دعویٰ کیا ہے کہ جج لویا کی موت کسی ریڈیو ایکٹیو آئیسوٹوپ کے زہر سے ہوئی ہے۔ اوئیکے نے اپنی عرضی میں پوسٹ مارٹم رپورٹ کی کاپیوں کے ساتھ کئی دستاویزی ثبوت پیش کیے۔
سپیشل سی بی آئی عدالت کے جج بی ایچ لویا کی مشتبہ حالت میں موت سے متعلق دائر ایک عرضی پر سماعت سے بامبے ہائی کورٹ کی ناگپور بنچ کے تین ججوں نے خود کو اس کیس سے الگ کر لیا ہے۔ ناگپور ہائی کورٹ میں وکیل سنجے اوئیکے کے ذریعہ داخل اس عرضی پر گزشتہ بدھ کو جسٹس سوپنا جوشی نے بغیر کوئی وجہ بتائے سماعت سے انکار کر دیا اور اس کے دو دن بعد جسٹس ایس پی شکرے اور جسٹس ایس ایم مودک نے بھی خود کو جج لویا کیس کی سماعت سے الگ کر لیا۔ انھوں نے کوئی وجہ نہ بتاتے ہوئے صرف اتنا کہا کہ ’’ہم سماعت نہیں کریں گے۔‘‘
پچھلے ہفتے ہائی کورٹ میں داخل اپنی عرضی میں ستیش اوئیکے نے دعویٰ کیا ہے کہ جج لویا کی موت کسی ریڈیو ایکٹیو آئیسوٹوپ کے زہر سے ہوئی ہے۔ اوئیکے نے عرضی میں پوسٹ مارٹم رپورٹ کی کاپیوں کے ساتھ کئی دستاویزی ثبوت پیش کرتے ہوئے لویا کی موت کی جانچ خراب کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ ’دی پرنٹ‘ کے مطابق عرضی دہندہ سنجے اوئیکے نے بتایا کہ سماعت سے خود کو الگ کرنے والے ججوں نے کہا کہ ان کے نام جج لویا کی موت کے معاملے میں زیر گفتگو تھے، اس لیے ان کے ذریعہ عرضی پر سماعت کرنا مناسب نہیں ہوگا۔
اپنی عرضی میں اوئیکے نے کہا ہے کہ مارچ 2015 میں اپنے ناگپور دورہ کے دوران بی جے پی صدر امت شاہ نے نیوکلیائی توانائی کمیشن کے سربراہ رتن کمار سنہا سے ملاقات کی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس ملاقات کے سبھی سرکاری ریکارڈ مٹا دیئے گئے ہیں۔ اوئیکے کے مطابق شاہ کی یہ ملاقات اس بات کا ثبوت ہے کہ لویا کی موت ریڈیو ایکٹیو زہر سے ہوئی تھی۔
قابل ذکر ہے کہ یکم دسمبر 2014 کو ناگپور میں ہوئی جج لویا کی موت کی کڑیوں میں جسٹس جوشی، جسٹس شکرے اور جسٹس مودک کے نام آئے تھے۔ جج لویا ناگپور جسٹس جوشی کی بیٹی کی شادی میں شامل ہونے گئے تھے۔ جسٹس شکرے ان دو ججوں میں سے ایک ہیں جو ناگپور اسپتال میں لویا کی موت کے وقت ان کے ساتھ تھے۔ وہیں جج لویا اس پارٹی میں شامل ہونے کے لئے جسٹس مودک کے ساتھ ناگپور آئے تھے۔
غور طلب ہے کہ اس سال اپریل میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی تین ججوں کی بنچ نے جج لویا کی موت کی آزادانہ جانچ کا مطالبہ ٹھکرا دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے جسٹس مودک کے اس بیان کی بنیاد پر یہ فیصلہ لیا تھا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اس وقت جج لویا کے ساتھ موجود تھے جب انھیں ہارٹ اٹیک آیا تھا۔ جسٹس مودک ان چار ججوں میں سے ایک ہیں جن کے بیانات کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ نے جانچ سے انکار کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ ممبئی کی خصوصی سی بی آئی عدالت کے جج بی ایچ لویا اپنی موت کے وقت سیاسی طور پر بے حد حساس سہراب الدین شیخ کے مبینہ فرضی تصادم معاملے کی سماعت کر رہے تھے۔ اس معاملے میں 22 دیگر لوگوں کے ساتھ بی جے پی صدر امت شاہ اہم ملزم تھے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Nov 2018, 8:09 PM