’سزا ملنے کے بعد پنشن کیوں؟‘ اوم پرکاش چوٹالہ سمیت 4 اراکین اسمبلی کے خلاف ہائی کورٹ میں عرضی داخل

اوم پرکاش چوٹالہ، اجئے چوٹالہ اور شیر سنگھ بڑشامی کو بدعنوانی کے الزام میں 16 دسمبر 2013 کو 10 سال کی سزا ہو چکی ہے۔ ستبیر کادیان کو بھی 26 اگست 2016 کو 7 سال کی سزا ہوئی ہے۔

اوم پرکاش چوٹالہ، تصویر آئی اے این ایس
اوم پرکاش چوٹالہ، تصویر آئی اے این ایس
user

قومی آواز بیورو

ہریانہ کے سابق وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ سمیت کئی سابق اراکین اسمبلی کے خلاف ہائی کورٹ میں ایک عرضی داخل کی گئی ہے۔ اس عرضی پر پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ نے حکومت کی درخواست پر سماعت فی الحال ملتوی کر دی ہے۔ اس معاملے میں تمام مدعا علیہ فریق سے جواب طلب کیا گیا ہے۔

اس معاملے میں ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ، سابق اسمبلی اسپیکر ستبیر سنگھ کادیان، سابق رکن اسمبلی اجئے چوٹالہ اور شیر سنگھ بڑشامی سے پوچھا گیا ہے کہ کیوں نہ ان کی پنشن پر روک لگا دی جائے؟ چنڈی گڑھ کے رہنے والے عرضی گزار ہری چند اروڑا کے مطابق انہوں نے اسمبلی سکریٹریٹ سے سابق اراکین اسمبلی کی پنشن کے بارے میں حق اطلاعات قانون کے تحت معلومات طلب کی تھی۔


سکریٹریٹ کی طرف سے بتایا گیا کہ 288 سابق اراکین اسمبلی کو پنشن دی جا رہی ہے۔ ان میں اوم پرکاش چوٹالہ کو 2 لاکھ 15 ہزار 430 روپے پنشن کے طور پر مل رہی ہے۔ ان کے بیٹے اجئے چوٹالہ کو 50 ہزار 100 روپے ماہانہ پنشن مل رہی ہے۔ شیر سنگھ بڑشامی کو بھی 50 ہزار 100 روپے ماہانہ پنشن مل رہی ہے۔ ایسے ہی ستبیر سنگھ کادیان کو بھی پنشن کی رقم دی جا رہی ہے۔ عرضی گزار کا کہنا ہے کہ اوم پرکاش چوٹالہ، اجئے چوٹالہ اور شیر سنگھ بڑشامی کو بدعنوانی کے الزام میں 16 دسمبر 2013 کو 10 سال کی سزا ہو چکی ہے۔ ستبیر کادیان کو بھی 26 اگست 2016 کو 7 سال کی سزا ہو چکی ہے۔ اس لیے انہیں پنشن ملنا غیر قانونی ہے۔ یہ عوام کے پیسے کا غلط استعمال ہے۔

عرضی گزار اروڑا نے بحث کے دوران کہا کہ ہریانہ اسمبلی کی دفعہ 7-اے (1-اے) (تنخواہ، بھتہ اور اراکین کی پنشن) ایکٹ، 1975 کے تحت اگر کسی رکن اسمبلی کو عدالت سزا سنا دے، تو وہ پنشن کے لئے نااہل ہو جاتے ہیں۔ اروڑا نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ انہوں نے اسمبلی سکریٹری کے سامنے بھی پنشن کو روکنے کے لئے عرضی دائر کی تھی۔ حالانکہ اسمبلی سکریٹری نے اپنے فیصلے میں کہا کہ یہ سابق اراکین اسمبلی تنخواہ، الاؤنسز اور پنشن ایکٹ کے تحت پنشن کے حقدار ہیں۔ ان کی رکنیت نہ تو کبھی دَل بَدل قانون کے تحت منسوخ کی گئی اور نہ ہی انہیں کبھی عوامی نمائندگی قانون کے تحت نااہل قرار دیا گیا۔ یہاں سے عرضی خارج ہونے کے بعد عرضی گزار نے ہائی کورٹ کا رخ کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔