پی ایم مودی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر نہیں کرتے بات، ماہرِ نفسیات نے بتائی اس کی وجہ

ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ پی ایم مودی ایسے چنندہ جھوٹ بولتے ہیں جنھیں آپ فوری طور پر نہیں پکڑ سکتے۔ ان کی شخصیت میں سنک موجود ہے کیونکہ وہ ہر چیز پر اپنا کنٹرول چاہتے ہیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

شیکسپئر نے ایک بار کہا تھا کہ کوئی ایسا فن نہیں ہے جو چہرے سے ذہن میں آ رہے خیالات کو پڑھ سکے، یعنی چہرے سے کسی شخص کی نفسیات کو نہیں جانا جا سکتا۔ لیکن وقت بدلا اور ماہر نفسیات نے اس طرح کے کئی طریقے تلاش کیے جن سے یہ پڑھا جا سکتا ہے کہ سامنے والا جھوٹ بول رہا ہے یا سچ۔

اسی بنیاد پر ماہرین نفسیات مانتے ہیں کہ پی ایم نریندر مودی چنندہ جھوٹ بولتے ہیں۔ ایسے جھوٹ جنھیں آپ فوری طور پر نہیں پکڑ سکتے۔ ان کی شخصیت میں ایک سنکی پن (کنٹرول فریک پرسنالٹی) ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر چیز پر اپنا کنٹرول چاہتے ہیں۔ وہ جذباتی باتیں کہہ کر اپنے لیے ہمدردی پیدا کر لیتے ہیں، لیکن آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے پرہیز کرتے ہیں۔

اس تعلق سے ہندی ہفتہ وار ’نوجیون‘ نے کچھ ماہرین نفسیات سے بات کر کے پی ایم نریندر مودی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کی تاکہ عام لوگوں کو ان کی شخصیت کی سچائی سے روبرو کرا سکیں۔ ان ماہرین نفسیات میں سے کسی سے مودی کی کبھی ملاقات تو نہیں ہوئی ہے، لیکن ان کی تقریروں، ٹی وی انٹرویوز کے ویڈیو پبلک ڈومین میں موجود ہیں، اس لیے ان کی شخصیت کو سمجھنا بہت آسان ہے۔

جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں شعبہ نفسیات میں اسسٹنٹ پروفیسر اروند مشر کہتے ہیں کہ ’’یہ بات عام جانکاری میں ہے کہ پی ایم مودی اپنے بارے میں دعوے کرتے ہوئے غلط اعداد و شمار اور دلیلیں پیش کرتے ہیں۔ علم نفسیات کی زبان میں کہیں تو جھوٹ بولنے والا شخص اصل ایشوز سے آپ کا دھیان بھٹکاتا ہے۔ وہ ایسے الفاظ کے ساتھ بات کرتا ہے کہ سامنے والے متوجہ ہو جاتے ہیں، لیکن اس میں کوئی عنصر موجود نہیں ہوتا۔

پروفیسر مشرا کہتے ہیں کہ پی ایم مودی اچھے مقرر ہیں۔ وہ اپوزیشن کو بھی اپنے ایجنڈے پر چلا رہے ہیں۔ اپوزیشن بھی ان کے جال میں پھنستا رہا ہے۔ ہمارے جیسے تنوع والے ملک میں عوام کی بھی الگ الگ سطح ہوتی ہے۔ مودی ان کے سامنے کچھ کچھ بھی بول دیتے ہیں اور لوگ ان پر یقین کرتے ہیں۔ اس طرح کی شخصیت کی خاص بات ہوتی ہے بہت زیادہ پراعتماد ہونا اور مودی میں غضب کا اعتماد ہے۔ وہ عام طور پر چنندہ جھوٹ بولتے ہیں جنھیں فوری طور پر نہیں پکڑا جا سکتا۔ بعد میں میڈیا یا پھر کوئی دانشور اس جھوٹ کو پکڑ بھی لیتے ہیں۔ لیکن اس وقت تک مودی اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں۔

ویسے پروفیسر مشرا یہ بھی جوڑتے ہیں کہ مودی سیاست میں جھوٹ بولنے والے تنہا شخص نہیں ہیں۔ جھوٹ کا صفائی سے استعمال ہر پارٹی کرتی ہے۔ پھر بھی، وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ گزشتہ پانچ سالوں میں جھوٹ کا بازار بہت چمکا ہے۔ سیاست میں زبان کی سطح بہت گری ہے، اخلاقیات اور صبر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ پروفیسر مشرا یہ بھی کہتے ہیں کہ کسی بڑے سیاستداں کے چہرے سے جھوٹ کو جلد پکڑنا بہت ہی مشکل ہوتا جا رہا ہے۔

دراصل بڑا سیاست داں اب محض ایک شخص نہیں رہ گیا۔ اسے کیا کپڑے پہننے ہیں اور کس طرح بولنا ہے، کہاں کون سا انداز اختیار کرنا ہے، کس طرح کی پہچان کے ساتھ کہاں جانا ہے، یہ سب فیصلہ لینے کے لیے منیجر ہوتے ہیں۔ سب کچھ منیجر ہی پروجیکٹ کر رہے ہوتے ہیں۔ ہندوستان ہی نہیں، امریکہ کے صدر کو بھی اسی طرح مینیج کیا جاتا ہے۔ اس لیے اب یہ اتنا آسان نہیں ہوتا کہ آپ ان کے چہرے سے کچھ جان سکیں، یا یہ جان سکیں کہ وہ کہاں سے کنٹرول کیے جا رہے ہیں۔

لیکن اس طرح کی شخصیت کو مینٹل ہیلتھ پروفیشنل ڈاکٹر نشا کھنہ ایک کیس کی طرح دیکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’’علم نفسیات کا ایک عام ضابطہ ہے کہ جب کوئی خود کو بہت اچھا یا بہت برا پیش کرتا ہے تو اندیشہ ہوتا ہے۔ جب وہ بول کر یا بغیر بولے لوگوں سے رابطہ کرتا ہے تو بہت اپنے پن اور نفاست سے بات کرتا ہے۔ بہت زیادہ جھوٹ بولنے والی شخصیت کی کچھ خاص باتیں ہوتی ہیں۔ وہ اپنے کام کے بارے میں بات نہیں کرتا بلکہ اپنے سے پہلے کے یا دوسرے لوگوں کی ہی تنقید کرتا رہتا ہے کہ آخر انھوں نے کیا کیا ہے؟‘‘

ڈاکٹر نشا کھنتہ نے مزید کہا کہ ایسا شخص سوال پوچھے جانے سے ڈرتا ہے۔ ایسے شخص کی پیشکش بہت اچھی ہوتی ہے لیکن وہ اپنی تنقید سننا پسند نہیں کرتا۔ ڈاکٹر نشا کہتی ہیں، اس طرح کی پرسنالٹی کنٹرول فریک (سنک بھری) ہوتی ہے۔ وہ ہر چیز پر اپنا کنٹرول چاہتی ہے۔ ان لوگوں کا اموشنل کوشینٹ (جذباتی سمجھ) بہت اونچا ہوتا ہے۔ ایسا شخص جانتا ہے کہ کب کیا کہنے سے سامنے والا متاثر ہوگا۔ کب جذباتی ہونا ہے اور کب خود کو فخر سے بھرا ظاہر کرنا ہے۔ اس طرح کی شخصیت کو دوسروں کا بولنا بھی پسند نہیں ہوتا۔ یہ ہر چیز کو اپنے ارد گرد چلاتا ہے یا چلانا چاہتا ہے۔ عام طور پر اس طرح کا شخص جھوٹ بولتے وقت لوگوں سے آنکھیں نہیں ملاتا۔ بھیڑ کے درمیان اس شخص کو پہچاننا مشکل ہوتا ہے۔ اگر اس شخص سے تنہائی میں بات کریں تو آپ اس کے جھوٹ کو آسانی سے پکڑ سکتے ہیں۔ یہ شخص دوسروں سے جڑنا پسند کرتا ہے، یعنی لوگوں سے بہ آسانی رشتہ استوار کرتا ہے۔ اب جیسے کہ مودی اکثر خود کو چائے والا بتا کر بہت سے لوگوں سے خود کو جوڑتے ہیں۔ کبھی وہ غریبی کی بات کرتے ہیں اور کبھی فقیری کی۔اس طرح کے شخص کی نفسیات یہ بھی کہتی ہے کہ ایسا شخص ضرورت پڑنے پر آنسو بھی بہا سکتا ہے۔

لیکن کیا کوئی ایسا طریقہ نہیں ہو سکتا کہ اس طرح کے شخص کے جھوٹ کو عوام پکڑ سکے؟ دہلی یونیورسٹی میں ایپلائیڈ سائیکولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سیف الرحمن فاروقی پی ایم مودی پر کچھ بھی بولنے سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن ان کا ماننا ہے کہ اب چہرے سے شخص کی ’ڈارک سائیڈ‘ یعنی منفی پہلو دیکھنا آسان نہیں رہا کیونکہ سب کچھ بہت مینوپُلیٹڈ ہوتا ہے۔

امریکی ماہر نفسیات اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا میں ایمیریٹس پروفیسر پال ایکمین نے مائیکرو ایکسپریشن پر بہت کام کیا ہے۔ انھوں نے اس پر ایک ٹی وی سیریز بھی بنائی۔ انھوں نے یہ اخذ کیا کہ اگر چہرے سے علم نفسیات جانا جا سکتا ہے تو جرائم پیشوں کے جھوٹ کو بھی آسانی سے پکڑا جا سکتا ہے۔ پروفیسر رحمن کہتے ہیں ’’ہمارے لوگوں کی دقت یہ ہے کہ جو کہا جا رہا ہے اسے اسی شکل میں درست سمجھ لیتے ہیں۔ جو بولا جا رہا ہے، ہم اس پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ جب کہ ہمیں ہر بولے جا رہے جملے کی پہلے جانچ کرنی چاہیے۔ اس کے بعد ہی اسے صحیح یا غلط ماننا چاہیے۔‘‘

پھر بھی علم نفسیات پی ایم مودی کے چہرے سے بہت کچھ بیان کرتا ہے۔ ان کے ذریعہ بولے گئے کچھ جھوٹ کی قلعی بھی کھلتی رہتی ہے، لیکن انھیں ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں بھی جھوٹ کا ہی بول بالا رہے گا۔ شاید جھوٹ میں کشش بھی ہوتی ہے۔ پروین شاکر کے لفظوں میں کہوں تو:

میں سچ کہوں گی اور پھر بھی ہار جاؤں گی

وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کر دے گا

(نوجیون کے لیے سدھانشو گپتا)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Apr 2019, 1:10 PM