راہل گاندھی، آر ایس ایس کے ’ہندو راشٹر‘ کی راہ میں حائل مضبوط دیوار
آر ایس ایس نے کبھی یہ امید نہیں کی تھی کہ ایک تنہا شخص اس قدر مزاحمت کر سکتا ہے، وہ بھی اس وقت جب پوری فوج حملہ آور ہو! کانگریس پہلے کی طرح آج بھی ایک ڈور میں بندھی ہے جسے راہل گاندھی نے تھام رکھا ہے
کئی دہائیوں سے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کو بدنام کرنے اور سیاسی طور پر ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف سنگھ (آر ایس ایس) ایک عجیب بے بسی میں پھنسا ہوا نظر آر رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تمام غلط خبروں کے باوجود راہل گاندھی ڈٹے ہوئے ہیں اور ان کے پاؤں اکھڑتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ اپنے خلاف ہر بدنیتی پر مبنی مہم کے بعد راہل ذاتی طور پر کسی نہ کسی مہم کے ذریعے بی جے پی، نریندر مودی اور آر ایس ایس اور اس کے نظریہ کے خلاف اٹھ کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ وہ جب بھی بیرون ملک دانشوروں سے بات چیت کرتے ہیں تو وہ ایک صاف گو، باشعور اور ذہین شخص کے طور پر سامنے آتے ہیں اور ایسے ہر موقع پر نریندر مودی کا قد ان کے سامنے بونا نظر آتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آر ایس ایس مایوسی میں اپنا سر کھجاتا رہ جاتا ہے اور راہل کو ایک ناسمجھ شخص کے طور پر پیش کرنے کی بی جے پی کے آئی ٹی سیل کی کوششیں بھی رائیگاں چلی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا اور ’فیکٹ چیک‘ کے اس دور میں جب بھی چھیڑ چھاڑ کی گئی ویڈیو کلپس جاری ہوتی ہیں تو جلد ہی حقیقت سامنے آ جاتی ہے۔
مختلف مواقع پر میں نے آر ایس ایس کے تمام مفکرین سے بات کی جس سے یہ واضح ہوا کہ وہ مختلف وجوہات کی وجہ سے چڑھے بیٹھے ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ بے پناہ طاقت ہونے کے باوجود وہ راہل گاندھی کو اپنے سامنے جھکا نہیں پا رہے ہیں۔ فسطائیت کے سخت مخالف ہونے کے ناطے راہل گاندھی اپنے نظریے سے ذرہ برابر بھی ہلنے کو تیار نہیں ہیں۔ بلیک میلنگ، دھمکیوں اور لالچ جیسے ہتھکنڈوں کے ذریعے انہوں نے کانگریس کے بہت سے لیڈروں کو توڑ کر راہل کو دباؤ میں لینے کی کوشش کی لیکن اس کا بھی راہل پر کوئی اثر نہیں ہوا اور 8 سال تک اقتدار میں رہنے کے باوجود بی جے پی حکومت راہل یا ان کے خاندان کے خلاف بدعنوانی کا کا کوئی ثبوت حاصل نہیں کر سکی۔
سنگھ کے مفکرین راہل گاندھی کو واحد شخص کے طور پر دیکھتے ہیں جو ہندوستان کی غیر متنازعہ حکمرانی اور ملک کو ان کے نظریے میں پوری طرح جذب ہونے کے درمیان دیوار کی طرح کھڑا ہے۔ آر ایس ایس کے ایک مفکر نے حال ہی میں بے دلی سے اعتراف کیا کہ راہل کا لندن میں یہ بیان درست تھا کہ ہندوستان میں اب لڑائی دو نظریات کے درمیان ہے۔ آر ایس ایس کو کسی ایک فرد سے اس طرح کی مزاحمت اور مخالفت کی توقع نہیں تھی، خاص طور پر جب اس کی پوری فوج حملے کر رہی ہو۔ ان کا ماننا ہے کہ ان کی کانگریس سے پاک مہم کے باوجود پارٹی اب بھی پہلے کی طرح ایک ڈور سے بندھی ہوئی ہے اور اس ڈور کو راہل گاندھی نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔
اب ان کے پاس راہل کے خلاف دوہری حکمت عملی ہے، پہلے کی طرح حملے جاری رکھیں اور ان کی پیدائش کو موضوع بحث بنائیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’شیو بھکتی، گوتر اور جنیو دکھانے کی تمام کوششوں کے بعد بھی وہ رومن کیتھولک ہیں۔‘‘ گویا عیسائی ہونا جرم ہے یا کسی کو کم تر بناتا ہے۔ جب اس بات کی نشاندہی کی گئی کہ وہ صرف آدھا عیسائی ہے لیکن ایک چوتھائی پارسی اور ایک چوتھائی کشمیری پنڈت ہے، تو آر ایس ایس کے ایک مفکر نے اس کی تردید کی اور کہا، ’’ہاں، ہاں۔ یہاں تک کہ نہرو نے بھی اپنے پنڈت لقب کو ساتھ رکھنا رہنا ضروری سمجھا۔ اپنے تمام سیکولر دعووں کے باوجود وہ اپنی برہمن نسل کو برقرار رکھتے ہیں لیکن دونوں میں فرق ہے۔ آر ایس ایس اعلیٰ ذاتوں پر دعویٰ کرتا ہے جبکہ راہل کا مخلوط نسب انہیں ملک کی موروثی تکثیریت اور مربوط ثقافت کی نمائندگی کرنے کے لیے بہترین پوزیشن میں رکھتا ہے۔ اس پر آر ایس ایس کا مفکر صرف یہ کہہ سکتا ہے، ’’لیکن وہ لیڈر سے بہتر بزنس مین ہو سکتے ہیں۔ اگر آپ کبھی ان سے بات کرتے ہیں تو آپ ان سے سیاست چھوڑنے اور مہاتما گاندھی کے مشورے کو سنجیدگی سے لینے اور کانگریس کو تحلیل کرکے بزنس ٹائیکون بننے کو کیوں نہیں کہتے؟‘‘
اس بیان کے کئی معنی ہیں، کہ آر ایس ایس کا راہل گاندھی کے سیکولرازم کے عزم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ کہ وہ راہل کو اس طرح خارج نہیں کر سکتے جس طرح وہ ان لوگوں کو خارج کرتے ہیں جو ان کے نظریہ سے متفق نہیں ہیں۔ امبیڈکرائٹ یا کمیونسٹ، راہل سب سے ساتھ گھل مل جاتے ہیں۔ وہ راہل کو برہمن مخالف ہونے یا اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے کی بنیاد پر بھی برطرف نہیں کر سکتے۔ آر ایس ایس اس حقیقت سے مایوس ہے کہ راہل ہر طرح کے ٹیگ میں بالکل فٹ بیٹھتے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے بعد بھی آر ایس ایس ملک کو کانگریس یا کانگریس کو نہرو-گاندھی سے آزاد نہیں کرا پائی، اس لئے وہ چاہتی ہے کہ راہل گاندھی سیاست چھوڑ کر خود کو ایک تاجر کے طور پر قائم کریں۔
ایک وقت تھا جب آر ایس ایس کا خیال تھا کہ اگر اس نے راہل گاندھی کی ذاتی ساکھ کو تباہ کر دیا تو ان کی پارٹی خود بخود مایوسی میں ختم ہو جائے گی لیکن آر ایس ایس یہ نہیں سمجھ سکی کہ راہل کے پاس اپنے لیے اقتدار کی کوئی خواہش نہیں ہے اور وہ ملک کو ’ہندو راشٹر‘ میں تبدیل کرنے کی راہ میں مضبوطی سے پرعزم ہیں۔ پھر اس نے ایک اور چال آزمائی، کہ اگر راہل اقتدار کے بھوکے نہیں ہیں تو وہ الیکشن نہیں جیت سکتے۔ ایسے میں انہوں نے کانگریس کے ووٹ کو تقسیم کرنے کے لیے دوسری پارٹیوں کو پیسے دے کر مدد کرنے کی حکمت عملی اپنائی۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی شخص میں اپنے لیے کچھ حاصل کرنے کا جذبہ نہیں ہے تو اسے شکست دینا مشکل ہے اور چونکہ مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد راہل کانگریس کی ریڑھ کی ہڈی رہے ہیں، اس لیے آر ایس ایس راہل کو مشورہ دینا چاہتی ہے کہ وہ سیاست چھوڑ کر کاروبار میں ہاتھ آزمائیں لیکن یہ صاف ہے کہ راہل کہیں نہیں جا رہے ہیں اور آر ایس ایس کے نظریہ سے لوہا لیتے رہیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔