بابولال مرانڈی کیوں ملے وزیر اعظم مودی سے ؟

جھارکھنڈ بی جے پی کے صدر بابولال مرانڈی نے دہلی میں وزیر اعظم سے ملاقات کی ہے۔ چپائی سورین 30 اگست کو بی جے پی میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس سے پہلے ہونے والی یہ ملاقات بہت اہم سمجھی جا رہی ہے۔

<div class="paragraphs"><p>تصویر بشکریہ سوشل میڈیا</p></div>

تصویر بشکریہ سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلی اور جے ایم ایم رہنما چمپائی سورین 30 اگست کو بی جے پی میں شامل ہونے جا رہے ہیں۔ اگر ذرائع کی مانیں تو جھارکھنڈ بی جے پی کے صدر بابولال مرانڈی چاہتے تھے کہ چمپائی سورین براہ راست بی جے پی میں شامل نہ ہوں، وہ پہلے اپنی پارٹی بنائیں۔ مرانڈی چاہتے تھے کہ چمپائی سورین این ڈی اے میں رہ کر اسمبلی انتخابات لڑیں اور جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کے قبائلی ووٹوں کو کاٹ دیں۔

نیوز پورٹل ’اے بی پی‘ پر شائع خبر کے مطابق بابولال مرانڈی نے کل  دہلی میں وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ اس ملاقات سے کئی سیاسی معنی نکالے جا رہے ہیں۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ اس میٹنگ میں چمپائی سورین کے پارٹی میں رول پر بھی بات ہوئی ۔ چمپائی سورین کے بی جے پی میں شامل ہونے کے فیصلے کے اگلے ہی دن مرانڈی نے وزیر اعظم مودی سے ملاقات کی۔


وزیر اعظم مودی کے ساتھ اپنی ملاقات کی تصویر شیئر کرتے ہوئے بابولال مرانڈی نے X پر لکھا، "آج میں نے نئی دہلی میں قابل احترام وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ایک ملاقات کی۔ محترم وزیر اعظم سے ملاقات  اور رہنمائی ہمیشہ نئی توانائی اور تحریک فراہم کرتی ہے۔ ‘‘

اس سے قبل بابولال مرانڈی نے چمپائی سورین کی پارٹی میں شمولیت کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا جواب دیا تھا۔ "اگر وہ شامل ہوتے ہیں تو ان کا خیر مقدم کیا جائے گا،" انہوں نے کہا۔ اس کے بارے میں اور کیا کہنا ہے؟"


قابل ذکر ہے کہ آسام کے وزیر اعلی اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات کے لئے بی جے پی کے شریک انچارج، ہمنتا بسوا سرما نے 26 اگست کو اعلان کیا تھا کہ جھارکھنڈ کے سابق وزیر اعلی چمپائی سورین بی جے پی میں شامل ہوں گے۔

واضح رہے کہ جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم) کے لیڈر چمپائی سورین نے پارٹی قیادت پر ان کی توہین کا الزام لگایا تھا اور اعلان کیا تھا کہ وہ جلد ہی اپنے اگلے سیاسی قدم کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ انہوں نے منگل کو سوشل میڈیا پر ایک اور پوسٹ کیا جس میں انہوں نے بنگلہ دیشی دراندازی کا مسئلہ اٹھایا اور کہا کہ صرف بی جے پی ہی اس میں سنجیدہ نظر آتی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔