مظفرنگر: طاہر کی 5 گایوں کی پُر اسرار موت، صدمہ میں پورا خاندان

گائے پروری اور دودھ بیچ کر گزر بسر کرنے والے کسان طاہر کی پانچ گائیں گزشتہ دنوں پُر اسرار طریقہ سے فوت ہو گئیں، اس واقعہ کے بعد سے طاہر کا خاندان صدمہ میں ہے اور گاؤں والے پہرہ دے رہے ہیں

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف
user

آس محمد کیف

مظفرنگر: مغربی اتر پردیش کے ضلع مظفرنگر میں واقع قطب پور گاؤں کے رہائشی 50 سالہ طاہر سیفی گزشتہ 30 سالوں سے گایوں کی پرورش کر رہے ہیں۔ وہ جنگل جاتے ہیں، چارہ لاتے ہیں اور اپنی گایوں کو کھلاتے ہیں۔ گائیں جو دودھ دیتی ہیں اسے فروخت کرکے اپنی گزر بسر کرتے ہیں۔ موب لنچنگ کی وجہ سے متعدد مسلم خاندان ایسے ہیں جنہوں نے گائے کی پرورش بند کر دی ہے، لیکن طاہر سیفی نے ایسا نہیں کیا۔ گایوں کے دودھ کی وجہ سے ہی ان کی عید منتی ہے، خاندان کو روٹی روزی حاصل ہوتی ہے اور اس کے دودھ کی آمدنی سے بچوں کی فیس ادا ہوتی ہے۔

تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

طاہر نے جب گائے پروری شروع کی تھی تب دودھ 5 روپے فی لیٹر فروخت ہوتا تھا اور آج وہ اسے 30 روپے فی لیٹر میں فروخت کرتے ہیں۔ ان کے پاس اس وقت 8 گائیں ہیں اور یہی ان کا کل سرمایہ ہے۔ وہ اپنے گاؤں کے بیرونی سرے پر واقع اپنے گھیر (مویشی باندھنے کا باڑہ) میں ان گایوں کو باندھتے ہیں جس کی وجہ سے یہاں گوبر کا ایک بہت بڑھا ڈھیر لگ گیا ہے۔

گزشتہ اتوار طاہر جب اپنی بیوی نساء کے ساتھ دودھ نکالنے کے لئے وہاں پہنچے تو چار گائے مردہ حالت میں ملیں۔ طاہر کی تو گویا پیروں تلے زمین کھسک گئی۔ وہ کہتے ہیں ’’چار گائیں مردہ حالت میں دیکھیں تو میری بیوی غش کھا کر گر گئی۔ ہمیں سمجھ میں ہی نہیں آیا کہ یہ کیا ہو گیا! گائے ہمارے لئے صرف ایک جانور ہی نہیں، بلکہ وہ خاندان کی ایک رکن ہیں۔‘‘


تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

طاہر کے مطابق ان میں سے دو گائیں دودھ دیتی تھیں اور دو حاملہ تھیں۔ ایک گائے تقریباً 14 لیٹر دودھ دے رہی تھی، طاہر کے مطابق ان گایوں کے 40 ہزار روپے مل رہے تھے پھر بھی انہیں نہیں بیچا تھا۔ طاہر کہتے ہیں ’’میں گائے پالتا ہوں، انہیں بیچتا نہیں، ان کا صرف دودھ بیچتا ہوں۔ ایک مرتبہ ایک لاکھ روپے میں بھینس لے آیا لیکن اسے 42 ہزار میں فروخت کر دیا۔ کیونکہ مجھے گائے پالنا ہی اچھا لگتا ہے۔‘‘


طاہر نے مزید کہا ’’گایوں کی موت سے گاؤں والے بھی حیران تھے اور کچھ عورتوں نے میری بیوی کو سنبھالا۔ میری بیوی کو اس قدر صدمہ پہنچا ہے کہ ہوش میں آنے کے بعد تین دن کے بچھڑے کو گود میں لے کر بیٹھ گئی، گویا وہی اس کی ماں ہو!‘‘ طاہر کی بیوی نساء نے کہا کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ گایوں کو زہر دیا گیا ہے کیوں کہ ان کے تھن نیلی پڑ گئے تھے۔

طاہر کہتے ہیں کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا کہ شائد سانپ نے ڈس لیا ہو، لیکن سانپ ایک ساتھ اتنی گایوں کو نہیں ڈس سکتا۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ شائد چارے میں کوئی زہریلا کیمیکل موجود رہا ہو اور باقی کا خیال ہے کہ گایوں کو شاید زہر دیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں ایک تو کسی نے رنجشاً یہ کام انجام دیا ہو اور دوسرا زہر دینے والے گروہ نے یہ واردات انجام دی ہو۔


تصویر آس محمد کیف
تصویر آس محمد کیف

طاہر اور نساء کا کہنا ہے کہ ان کی کسی سے رنجش نہیں ہے اور وہ عام غریب لوگ ہیں۔ گاؤں میں سبھی سے دعا سلام رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں تو کوئی اپنے کھیت سے گھاس کاٹنے کو بھی منع نہیں کرتا۔ زہر دینے والے گروہ کے حوالہ سے طاہر نے کہا کہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہو سکتی، کیوںکہ گاؤں کے مردہ مویشی کا ٹھیکہ بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔ واضح رہے کہ زہر دینے والا گروہ مویشیوں کو زہر دے کر مارتا ہے اور پھر مرے جانور کے اعضا بیچ کر کمائی کرتا ہے۔


قطب پور کے کسان بھرت سنگھ کہتے ہیں کہ گایوں کی موت اتنی پُر اسرار طریقہ سے ہوئی ہے کہ اس معمہ کو پوسٹ مارٹم کے بعد ہی حل کیا جا سکتا ہے۔ مگر دقت یہ ہے کہ طاہر گایوں کا پوسٹ مارٹم نہیں کرانا چاہتے تھے۔ طاہر نے کہا، ’’گائیں میرے خاندان کا ایک حصہ تھیں۔ وہ اب مر چکی ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ان کی لاشوں کا چیر پھاڑ کیا جائے۔ یہ بات میرے لئے تکلیف دہ ہوتی۔ پوسٹ مارٹم کرانے سے مجھے معاوضہ مل سکتا تھا لیکن دل کا درد تو برقرار رہتا۔ اس لئے میں نے رپورٹ درج نہیں کرائی۔‘‘

مظفرنگر کے اس گاؤں کے لوگ سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں اور گاؤں کی دو ہزار کی آبادی، جس میں ہندو مسلمان سب شامل ہیں، ہم آہنگی سے رہتے ہیں۔ اس واقع کے بعد ان گایوں کے پاس بندھی رہنے والی پانچویں گائے بھی فوت ہو گئی، اس طرح فوت ہونے والی گایوں کی تعداد اب 5 ہو گئی ہے۔ پانچویں گائے طاہر کے بڑے بھائی رحیم الدین کی تھی۔ رحیم الدین نے گائے کی طبیعت خراب دیکھی تو مویشیوں کے ڈاکٹر کو بلا کر لایا لیکن اسے بچایا نہیں جا سکا۔


طاہر کے پاس اب محض تین گائیں بچی ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی دودھ نہیں دیتی۔ طاہر خالی پڑے پانچ فوت ہو چکی گایوں کے کھونٹے کو نہارتے رہتے ہیں اور کہتے ہیں یہی ان کا گھر تھا۔ طاہر نے کہا ’’اگر یہ حادثہ ہے تو میرے ساتھ ایسا المناک حادثہ آخر کیوں پیش آیا اور اگر یہ کسی کی سازش ہے تو ان بے زبان گایوں کی آخر کیا غلطی ہے؟‘‘ بدقسمتی سے طاہر کے سوالوں کی جواب کسی کے پاس نہیں ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Jun 2020, 9:11 PM