بہار کی غربت و پسماندگی کے لیے حقیقی طور پر قصوروار کون؟ (موہن گروسوامی کا مضمون)
بہار کے 50 فیصد لوگ غریب ہیں، ہر سطح پر ریاست لگاتار پسماندہ ہوتی جا رہی ہے، ان سب کے لیے آخر کون سی پالیسی پر انگلی اٹھانی چاہیے؟
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ بہار ہندوستان میں سب سے غریب اور سب سے پسماندہ ریاست ہے۔ حالات اس تعلق سے خود ہی سچائی بیان کرتے ہیں۔ لیکن اس حالت کو یہ بات دلچسپ بناتی ہے کہ بہار ہندوستان میں واحد ریاست ہے جہاں غریبی کے پیمانے سبھی قصبوں میں یکساں طور سے اعلیٰ سطح 46 سے 70 فیصد تک ہیں۔ بہار میں سالانہ حقیقی فی کس آمدنی 3650 روپے ہے جو 11625 روپے کے قومی اوسط کا تقریباً ایک تہائی ہے۔ بہار ہندوستان کی ایسی تنہا ریاست ہے جہاں اکثریت آبادی 52.47 فیصد ناخواندہ ہے۔
لیکن بہار کے پاس کچھ اچھی باتیں بھی ہیں۔ بہار میں نوزائیدہ کی شرح اموات 1000 میں 62 ہے، جو کہ قومی اوسط 1000 میں 66 سے کم ہے۔ لیکن یہ جاننا دلچسپ ہے کہ یہ اتر پردیش (83) اور اڈیشہ (91) جیسی ریاستوں سے ہی نہیں بلکہ آندھرا پردیش اور ہریانہ (دونوں 66) جیسی ریاستوں سے بھی بہتر ہے۔ زندگی کی طوالت کے نظریہ سے بھی بہار میں مردوں کی اوسط عمر ایک سال زیادہ یعنی 63.6 سے زیادہ ہوتی ہے اور گزشتہ تین سال کے دوران بڑھتی زندگی کی عمر میں ریاست کی حصولیابی دوسری ریاستوں کے مقابلے میں بہتر رہی ہے۔ بہار میں 70.4 لاکھ ہیکٹیر زرعی زمین ہے اور فی ہیکٹیر پیداوار 1679 کلوگرام ہے جو قومی اوسط 1739 کلوگرام سے کم ہے۔ پھر بھی یہ کرناٹک اور مہاراشٹر جیسی کچھ بڑی زرعی ریاستوں سمیت چھ دیگر ریاستوں سے بہتر ہے۔ اس کے باوجود مجموعی طور پر سماجی-معاشی معاملوں میں بہار صاف طور پر بہت ہی خراب حالت میں ہے۔
گزشتہ تین سالوں کے دوران آل انڈیا فی کس ترقیاتی خرچ 7935 روپے رہے ہیں۔ اس کے برعکس بہار کا یہ خرچ 3633 روپے رہا ہے۔ ترقیاتی خرچ قومی خزانہ مین ریاست کی شراکت داری سمیت کئی طرح کے اسباب پر منحصر کرتا ہے، فی کس دسویں منصوبہ سائز کو کوئی دلیل واضح نہیں کر سکتی جو گجرات (9289.10 روپے)، کرناٹک (8260 روپے) اور پنجاب (7681.20 روپے) جیسی ریاستوں سے ایک تہائی تک کم ہے۔ معمولی قسم کی لیکن ٹھیک معاشی دلیل ہمیں بتاتی ہے کہ جب کوئی علاقہ پچھڑتا جاتا ہے، اور یہی نہیں بلکہ بہت پچھڑتا جاتا ہے تو اس کی ترقی اور رفتار میں زیادہ مقدار میں سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کنبہ میں کمزور یا بیمار بچے کو بہتر غذا اور زیادہ توجہ دینے کی طرح ہے۔ صرف جنگلی ریاست میں ہی ہم سب سے مضبوط کی جان بچانے اور کمزور کو نظر انداز کرنے، یہاں تک کہ اس کا قتل تک کی بات دیکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی معاشی اور سماجی حالت میں یہ ریاست جس اضافی مدد کی نہ صرف اہلیت رکھتی ہے، بلکہ اس کی جو مجموعی طلب ہے، اس سے بہار کو انتظامی طور پر محروم کیا جا رہا ہے۔
بہار میں فی کس سرمایہ کاری کی بدتر حالت سے یہ صاف ہے کہ مرکزی حکومت اسے انتظامی طریقے سے فنڈ کے لیے ترسا رہی ہے۔ بہار نے صاف طور پر مرکزی حکومت کے ساتھ طویل مدت تک سیاسی طور پر کوآرڈنیشن سے باہر رہنے کا خمیازہ بھگتا ہے۔ گزشتہ بار یہ مدت کار 1992 سے 2004 تک کی تھی۔ گزشتہ ایک سال سے پٹنہ میں ایسی حکومت ہے جس کی نئی دہلی کی حکومت سے اچھا رشتہ نہیں ہے۔ امداد کے معاملے میں صاف طو رپر ویسی ریاست بہت بہتر رہتی ہیں جن کا سیاسی کوآرڈنیشن (تال میل) بہتر ہوتا ہے۔ آندھرا پردیش پر نظر ڈالیں۔ یہ ایسی ریاست ہے جس کی بہت حد تک نئی دہلی کے ساتھ سیاسی تال میل قائم ہے۔ اسے مرکزی حکومت سے 2000 سے 2005 کے درمیان کافی گرانٹ ملا ہے۔ بہار کو اس دوران 10833 کروڑ ملے جبکہ آندھرا پردیش کو 15542 کروڑ روپے حاصل ہوئے۔
مرکزی حکومت سے مجموعی قرض کے معاملے میں بھی بہار کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ 02-2000 میں اسے 2849.60 کروڑ ہی ملے، جبکہ آندھرا پردیش کو 6902.20 کروڑ روپے حاصل ہوئے۔ صرف مرکزی ٹیکسوں کے فی کس شیئر میں ہی بہار کو اس کا حق ملا ہے۔ مرکزی حکومت کے ذریعہ زبردست طریقے سے نظر انداز کیا جانا ہی ہے کہ بہار نے 2001 میں کافی کم فی کس مرکزی امداد (اضافی امداد، گرانٹ اور مرکز سے مجموعی قرض) حاصل کیا۔ آندھرا پردیش کو فی کس 625.60 روپے ملے جبکہ بہار کو اس سے بہت کم 276.70 روپے حاصل ہوئے۔
بہار کا معاشی طور پر گلا گھونٹنے کے نتیجہ کو ریاستی حکومت کی چار اہم ترقیاتی کوششوں میں بہت ہی واضح طریقے سے کم سرمایہ کاری امکانات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ بہار کا سڑکوں پر فی کس خرچ 44.60 روپے ہے جو قومی اوسط کا صرف 38 فیصد ہے۔ اس میں قومی اوسط 117.80 روپے ہے۔ اسی طرح آبپاشی اور سیلاب کنٹرول میں بہار فی کس صرف 104.40 روپے خرچ کرتا ہے، جبکہ قومی اوسط 199.20 روپے ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ بہار کتنا ’بھول سکتا ہے‘؟ اگر بہار صرف قومی فی کس اوسط حاصل کرتا تو دسویں پنج سالہ منصوبہ میں اسے 48216.66 کروڑ روپے ملتے، جبکہ اسے صرف 21000 کروڑ روپے الاٹ کیے گئے۔ یہ ٹرینڈ پہلی پنج سالہ منصوبہ میں ہی بن گیا تھا اور مجموعی کمی اب 80000 کروڑ روپے سے بھی زیادہ ہو گئی ہوگی۔ یہ اب ہرا دینے والی بڑی بات ہو گئی ہے۔ مشہور قومی قرض/اُدھار تناسب کے فائدہ کے طور پر تب اسے بینکوں سے قرض کے طور پر 44830 کروڑ روپے ملتے، نہ کہ صرف 5635.76 کروڑ روپے جو حقیقی طور پر اسے ملے۔
اسی طرح بہار کو مالیاتی اداروں سے صرف 551.60 روپے فی کس کا قلیل حصہ ملا جبکہ اس کا قومی اوسط فی کس 4828.80 روپے ہے۔ اسے اس طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ بہار میں شاید ہی کوئی صنعتی سرگرمی ہے۔ لیکن نابارڈ سے کم سرمایہ کاری کو لے کر کوئی دلیل نہیں دی جا سکتی ہے۔ 2000 سے 2002 تک کے مجموعی فی کس بنیاد پر بہار کو نابارڈ سے صرف 119 روپے ملے، جبکہ آندھرا کو 164.80 روپے اور پنجاب کو 306.30 روپے۔ یہ کوئی دلیل نہیں ہو سکتی کہ بہار میں کوئی زرعی کام نہیں ہو رہا ہے۔ اگر مالیاتی اداروں نے قومی فی کس اوسط جتنا بھی بہار میں سرمایہ کاری کی ہوتی تو ریاست کو سرمایہ کے لیے 40020.51 کروڑ روپے ملتے، جبکہ اسے حقیقی طور پر 4571.59 کروڑ روپے ہی ملے۔
صاف طور پر بہار کو نہ صرف اس کا حق دینے سے منع کیا جا رہا ہے بلکہ ہندوستان کی سب سے غریب اور سب سے پسماندہ ریاست بہار سے رقم وصول بھی کی جا رہی ہے۔ یہ واقعی افسوسناک ہی ہے۔ یہ ایک غیر اخلاقی ’چکر‘ بن جاتا ہے۔ دیگر ریاستوں میں یہ پونجی مالی معاشی سرگرمی ٹیکسیشن کا اعلیٰ سطحی چکر اور وہاں نتیجہ کار زیادہ مرکزی حکومت کی امداد لاتی ہے۔ اگر کوئی سخت زبان کا استعمال کرنا چاہے تو وہ کہہ سکتا ہے کہ بہار کا انتظامی طور پر استحصال کیا جا رہا ہے اور مرکزی فنڈ کے اس کے حق پر مبنی حصے سے محروم کر کے ریاست کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ اب بہار کی جس طرح کی خستہ حالی ہے، اسے ابھی مرکز سے جتنا حصہ مل رہا ہے، اس سے دوگنے کی ضرورت ہے۔ لیکن کیا اسے یہ مل پائے گا؟ تب تک نہیں جب تک بہار کے لوگ بیدار نہیں ہوں گے اور پوری طاقت کے ساتھ مرکز سے وہ سب نہیں مانگیں گے جس سے انھیں 75 سال سے محروم کیا جا رہا ہے۔
(موہن گروسوامی معاشی پالیسی پر مستقل لکھتے رہے ہیں)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔