دیوالی پر دوسروں کا گھر روشن کرنے والوں کے گھروں میں اندھیرا
دیوں سے جو آمدنی ہوتی ہے اس میں کنبہ کے اخراجات کی تکمیل نہیں ہوپاتی ہے توایسے میں بچوں کو تعلیم کہاں سے دیں گے۔
پریاگ راج: دیوالی کے موقع پر لوگوں کے گھروں میں علم کا چراغ اورخوشحالی کے دیے روشن کرنے والے کمہاروں کی پریشانی یہ ہے کہ ان کے گھر اب بھی ناخواندگی نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔
دیوالی کے موقع پر گھر گھر میں دیئے (چراغ) جگمانے کے لئے مٹی کا دیا بنانے والے کمہاروں کے روزگار کو مہنگائی کی مار اور حکومت کی بے رخی ختم کرتی جا رہی ہے۔ مارکیٹ میں جدید آلات نے آج کمہار کے چاک کی رفتار کو بریک لگا دیا ہے۔ بھلے ہی مہنگائی کی مار صارفین پر اتنی نہیں پڑی ہو، لیکن مشینوں کی ایجادات نے ان کی روزی روٹی ضرور چھین لی ہے۔ کمہاروں کا یہ روایتی کاروبار اب زوال کی جانب مائل ہے۔کچھ بزرگ کمہار ہی بچے ہیں جن کی کانپتی انگلیاں آج بھی روایتی کاروبار کے پہیہ کوڈھکیل رہی ہیں۔
کمہاروں کا کہنا ہے کہ دئیے اور مٹی کے دیگر برتنوں کی وافر مقدار میں فروخت نہ ہونے کہ وجہ سے وہ معاشی تنگ دستی کا سامنا کر رہے ہیں اور بذات خود اپنے گھروں کو روشن کرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے کمہاروں کی زندگی میں روز بروز اندھیرا گھرتا جا رہا ہے۔ وہ اپنے اس روایتی کاروبار سے اب الجھن کے شکار ہیں۔ شہر کے کوہلانا باغ کوہرانا، بستی، بہرانا، بلواگھاٹ، رسول آباد، تیلیر گنج، سلوم سرائے، پیپل گاؤں اور راج روپر وغیرہ علاقوں میں کچھ سالوں پہلے تقریبا ً500 کنبے اس کاروبار سے جڑے ہوئے تھے جو اب کم ہوکر تقریبا ً150 اور 200 ہی رہ گئےہیں۔
آلوپی باغ کے سکّھو پرجا پتی کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے بچوں کو تعلیم نہیں دے پا رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ جو آمدنی ہوتی ہے اس میں کنبہ کے اخراجات کی تکمیل نہیں ہوپاتی ہے توایسے میں بچوں کو تعلیم کہاں سے دیں گے۔ تعلیم بھی اب صرف کاروبار بن کررہ گیا ہے۔ جتنا میعاری اسکول ہوگا اتنی ہی مہنگی فیس ہوگی۔ تعلیم کی کمی کی وجہ سے بیداری کی کمی اور معاشی تنگی نے ہمیں گھیر رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اگر اس جانب توجہ دیں اوراس ضمن میں کوئی اقدام کریں تو اس کاروبار کا فروغ ہوگا اورکمہاروں کے جینے کا سہارا مل جائے گا۔
مدھیہ پردیش کی طرح اگر یہاں بھی الکٹرانک چاک کی سہولت کرائی جائے اور دیگر دوسری سہولیات فراہم کی جائیں تو نئی نسل جواس روایتی کاروبار سے دوری بنا رہی ہے ایک بارپھر اس میں اپنی زندگی کی خوراک ڈھونڈھنے کے لئے اس کی جانب مائل ہوگی۔
سال 2005 میں مرکز میں یوپی اے کی حکومت بننے پر لالو یادو وزیر ریل بنے تھے۔ ان کی دریا دلی سے کمہاروں میں زندگی کی نئی کرن چمکی تھی۔ انہوں نے ریلوے اسٹیشنوں پر پلاسٹک کے کپ کے عوض مٹی کے کلّہڑ میں چائے بیچنا لازمی کر دیا تھا جس کے بعد کمہاروں کے چاک ایک بار پھر دوڑنے لگے تھے اور گھروں میں دونوں وقت چولہا جلنے لگا تھا اور بچوں نے اسکول جانے کا راستہ پہچان لیا تھا۔
اسی کاروبار سے منسلک بابو پرجاپتی نے بتایا کہ شہر میں کمہاروں کے سامنے سب سے بڑی پریشانی زمین کی ہے۔انہیں مٹی کے لئے بھی در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں۔ وہ دیہی علاقوں سے مٹی منگاتے ہیں۔کمہاروں کو مٹی کے لئے بھی موٹی رقم کی ادائیگی کرنی ہوتی ہے۔ گذشتہ سال جو دیئے 30 روپئے سیکڑا تھے اب بڑھ کر ان کی قیمت 50 روپئے ہوگئی ہے۔ بڑے دیئے 70 سے 100 روپئے سیکڑا پہنچ گئے ہیں۔ کچھ سالوں پہلے 10 روپیے سیکڑا دیئے فروخت ہوتے تھے۔ آمدنی ہوتی تھی۔ اب لوگ رسم کی ادائیگی کرتے ہیں۔
مکند شریا دوبے نے بتایا کہ چاک کے ایجاد نے دنیا کو تہذیب کا سبق سکھایا تھا۔ اگر چاک کا ایجاد نہ ہوتا تو آج ہمارے پاس اتنی طبیعات ، ریاضی اور جیومٹری کا علم بھی نہ ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ مٹی کا دیا مٹی سے بنے نسل انسانی کے جسم کا مظہر ہے۔ اس میں رہنے والا تیل اس کی زندگی کا طرز عمل کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کی روشنی ہمیں سماج سے تایکی کو دور کر کے علم اور تہذیب کی روشنی پھیلانے پیغام دیتی ہے۔ اس کی شعائیں صرف روشنی کا مظہر نہیں ہیں بلکہ وہ جہالت سے تاریکی کو مٹا کر علم کے روشنی سے زندگی کو روشن کرنے کا پیغام دیتی ہیں۔
سائنس داں دوبے نے کہا کہ یہ کمہاروں کی بدنصیبی نہیں تو اور کیا ہے کہ دیوالی کے موقع پر دوسروں کے گھروں کو روشن کرنے والے کمہارکے گھر تاریکی اور جہالت نےاب بھی ان کے گھروں میں ڈیرا ڈال رکھا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 05 Nov 2018, 11:09 PM