کہیں مذہبی تڑکا تو کہیں ذات پات کا کھیل، عوام کو اپنے مدوں کو دینی ہوگی ترجیح
حکمراں جماعت چاہے کتنا ہی سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کی بات کرتی رہے لیکن یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ اس کا ایک خاص طبقہ کے تئیں نرم گوشہ ہے جس کی وجہ سے سماج کے دوسرے طبقوں میں بے چینی ہے۔
پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات کا عمل جاری ہے اور اتر پردیش جو ملک کی سب سے بڑی ریاست ہے وہاں 10 فروری کو پہلے مرحلہ کے لئے ووٹنگ ہونی ہے۔ اس پہلے مرحلہ کے لئے انتخابی مہم بھی تھم گئی ہے۔ جیسی امید تھی انتخابی مہم میں ہر رنگ دیکھنے کو ملا۔ حکمراں جماعت نے جہاں اپنی انتخابی مہم میں مذہب کا تڑکا لگایا وہیں ان کی مخالف جماعتوں نے جیتنے کے لئے اپنی حکمت عملی تیار کی۔
حکمراں جماعت چاہے کتنا ہی سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس کی بات کرتی رہے لیکن یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ اس کا ایک خاص طبقہ کے تئیں نرم گوشہ ہے جس کی وجہ سے سماج کے دوسرے طبقوں میں بے چینی ہے۔ اس حقیقت سے دنیا کی کوئی طاقت منکر نہیں ہو سکتی کہ اگر کسی حکومت کا جھکاؤ کسی ایک طبقہ یا سماج کی جانب ہوتا ہے تو یقیناً اس کا نقصان ملک کے عوام کو اٹھانا پڑتا ہے کیونکہ حکمرانی میں ایسی حکومتوں کی ترجیحات یعنی جھکاؤ اس طبقہ اور سماج کی جانب ہوتا ہے جس کی وجہ سے پوری گورننس متاثر ہوتی ہے۔
حکمراں جماعت کے توڑ کے لئے سماجوادی پارٹی نے جہاں ذات پات کو نظر میں رکھتے ہوئے انتخابی اتحاد کیا، وہیں کانگریس نے روزگار، مہنگائی اور تعلیم جیسے مدوں کو اپنا انتخابی ہتھیار بنایا۔ بی ایس پی نے ان انتخابات میں دیر سے ضرور انٹری لی اور اس کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اس کا وو ٹ بینک ادھر ادھر نہیں ہوتا، لیکن یہ انتخابات ہیں اس کے بارے میں پہلے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حکمراں جماعت کو اسد الدین اویسی کے انتخابی میدان میں اترنے سے فائدہ ملنے کی پوری امید ہے لیکن اس کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ اویسی کی پارٹی کو مسلمانوں کی کتنی حمایت ملتی ہے۔
انتخابات میں جہاں سیاسی وفاداریاں بدلنا بھی دیکھا گیا، وہیں اسد الدین اویسی پر گولی سے ناکام حملہ کرنے کا معاملہ بھی سامنے آیا۔ یہ واقعہ قابل مذمت ہے۔ اس کا فائدہ حکمراں جماعت کو ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔ کانگریس نے جہاں ’لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں‘ کے نعرے کے ساتھ خواتین کو 40 فیصد ریزرویشن دینے کا اعلان، لڑکیوں کو اسکوٹی اور نوجوانوں کو روزگار دینے جیسے بنیادی وعدے کئے ہیں، وہیں بی جے پی نےاپنے انتخابی منشور میں بھی نوکریوں، اسکوٹی دینے جیسے کئی وعدے کئے ہیں۔ بی جے پی نے اپنی ہندو شبیہ اور اپنے ووٹر کو ذہن میں رکھتے ہوئے لو جہاد پر قانون بنانے اور ایودھیا میں رامائن یونیورسٹی کے قیام کی بات کہی ہے۔ سماجوادی پارٹی نے کسانوں کو اپنے انتخابی منشور کے مرکز میں رکھا ہے۔ ایک سال کسانوں نے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کیا اور ایک سال کے بعد وزیر اعظم کو کسانوں کے آگے جھکنا پڑا اور یہ زرعی قوانین واپس لئے گئے۔ اس کا مطلب صاف ہے کہ کسان اور ان کے مدے ان انتخابات کے مرکز میں رہیں گے اسی لئے تمام سیاسی پارٹیاں کسانوں کے لئے کئی وعدے کر رہی ہیں۔
مغربی اتر پردیش کے 11 اضلاع میرٹھ، غازی آباد، گوتم بدھ نگر، ہاپوڑ، باغپت، بلند شہر، مظفر نگر، شاملی، علی گڑھ، متھرا اور آگرہ کی 58 اسمبلی سیٹوں پر پہلے مرحلہ کے لئے پولنگ ہونی ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق، پہلے مرحلے میں مغربی یوپی کے 11 اضلاع کی 58 اسمبلی سیٹوں کے 2.27 کروڑ لوگ ووٹ ڈالیں گے۔ 11 اضلاع میں کل 10,766 پولنگ اسٹیشن اور 25,849 پولنگ مقامات بنائے گئے ہیں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ پچھلے انتخابات میں حکمراں جماعت بی جے پی کو 58 میں سے 53 سیٹیں ملی تھیں اور اس کی وجہ مظفر نگر فسادات تھے یعنی ہندو-مسلم کی بنیاد پر تقسیم۔
واضح رہے پہلے مرحلے میں علی گڑھ کی اگلاس سیٹ سے کم از کم پانچ امیدوار میدان میں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی مظفر نگر اور متھرا سیٹوں سے 15-15 امیدوار انتخابی میدان میں ہیں۔ ابتدائی طور پر ان نشستوں کے لیے 810 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی داخل کیے تھے۔ تاہم جانچ پڑتال میں 152 امیدواروں کے کاغذات نامزدگی مسترد ہوئے اور 35 امیدواروں نے اپنے کاغذات واپس لے لیے ہیں۔
پہلے مرحلے میں شاملی کی تین، مظفر نگر کی چھ، میرٹھ کی سات، باغپت کی تین، غازی آباد کی پانچ، ہاپوڑ کی تین، گوتم بدھ نگر کی تین، بلند شہر کی سات، علی گڑھ کی سات، متھرا میں پانچ اور آگرہ میں نو سیٹوں پر انتخابات ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں کیرانہ، تھانہ بھون، شاملی، بڈھانہ، چارتھاول، پرقاضی (محفوظ)، مظفر نگر، کھتولی، میرا پور، سیوال خاص، سردھنا، ہستینا پور (ریزرو)، کٹھور، میرٹھ چھاؤنی، میرٹھ، میرٹھ جنوبی، چھپرولی، بڑوت، باغپت، لونی، کوال، علی گڑھ، اگلاس (محفوظ)، چھتر، منت، گووردھن، متھرا، بلدیو (محفوظ)، اعتماد پور، آگرہ چھاؤنی (ریزرو)، آگرہ جنوبی، آگرہ شمالی، آگرہ دیہی (محفوظ)، فتح پور سیکری، خیر گڑھ، فتح آباد، باہ میں پولنگ ہونی ہے۔
انتخابات بھی ہو جائیں اور نتائج کے بعد ریاستوں میں حکومتیں بھی قائم ہو جائیں گی لیکن انتخابات اور حکومتوں کا مقصد عوام کی فلاح اور ملک کی ترقی و خوشحالی ہو نا چاہئے۔ عوام کے ہاتھ میں کہ وہ اپنے لئے کیسی حکومت کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر وہ دور اندیشی سے کام لیتے ہیں تو یقینا ان کو ہی فائدہ ہوگا اور اگر وہ تقسیم ہو کر چھوٹے فائدوں کی جانب راغب ہوتے ہیں تو ان کے لئے پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔ عوام کو اپنے ووٹ کے حق کا استعمال کرنا چاہئے اور ووٹ ڈالتے وقت ملک کی خوشحالی، ترقی اور بھائی چارے کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔