جب راجیو گاندھی پانچ خواتین کے تیکھے سوالوں کے جواب دینے ’دوردرشن اسٹوڈیو‘ پہنچ گئے!
انٹرویو ختم ہونے کے بعد راجیو گاندھی نے تمام خواتین کا گرم جوشی کے ساتھ شکریہ ادا کیا اور جب اسے نشر کیا گیا تو ایک ہی طرح کے پروگرام پیش کرنے والے ’دوردرشن‘ پر تازگی کا احساس ہوا
مرنال پانڈے
راجیو گاندھی پہلی مرتبہ دوردرشن پر تب آئے تھے جب 1984 میں انہوں نے ہندوستان کے وزیر اعظم کے طور پر حلف اٹھایا۔ انہوں نے کافی تکلیلف دہ صورت حال میں اپنی والدہ اندرا گاندھی کا مقام حاصل کیا تھا اور اس پروگرام کو تقریباً 6 کروڑ ہندوستانیوں نے دیکھا تھا۔ چالیس سال کے راجیو میں وہ سب کچھ تھا جس کی ٹی وی کے لحاظ سے کسی مثالی شخص سے توقع کی جاتی ہے، خود اعتماد سے پر شاندار شخصیت اور انگریزی اور ہندی میں یکساں طور پر آسانی کے ساتھ بات چیت کرنے کی قابلیت۔
ایک سال بعد 1985 میں نئے وزیر اعظم کے انٹرویو کی میری درخواست قبول کر لیا جاتا ہے۔ تب ٹائمز آف انڈیا گروپ کے ساتھ میرا تعلق دو سال پرانا تھا اور مجھے ہندی میگزین ’واما‘ کو شروع کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔ ایک ایڈیٹر کے طور پر مجھے دو ہستیوں کی رہنمائی حاصل ہوئی، فن و ثقافت کے شعبہ میں جانے مانے پوپول جے کر اور عظیم مفکر کپیلا واتسیاین۔
دونوں نے مجھ سے نڈر ہو کر انٹرویو کے لئے پی ایم او سے رابطہ کرنے کے لئے کہا اور میں نے ایسا ہی کیا۔ آخر کار 26 فروری کے لئے وقت مل گیا اور جگہ طے ہوئی ہندوستانی سرکاری ٹی وی دوردرشن کا اسٹوڈیو۔ اس کے بعد میں نے راجیو گاندھی کے میڈیا مشیروں اور دوردرشن کے عہدیداران سے مل کر انٹریو سے پہلے خاکہ تیار کرنے کے لئے بات چیت شروع کی۔ میں نے مشورہ دیا کہ مختلف شعبوں میں اپنا خاص مقام حاصل کر چکیں خواتین کا ایک پینل تشکیل دیا جائے اور وہ اپنے پسندیدہ موضوعات مثلاً، تعلیم، ہندوستان میں غیر رسمی شعبہ کی اہمیت، 21ویں صدی کے لئے ہمارے خواب اور اس میں خواتین کا کردار وغیرہ پر راجیو گاندھی سے انٹرویو کریں۔ کچھ جھجک کے بعد ہو اس پر رضامند ہو گئے اور مجھ سے کہا کہ اس شو کی اینکرنگ میں کروں۔ مجھے یہ یقینی بنانا تھا کہ انٹرویو ایک تلخ تکرار میں تبدیل نہ ہو جائے۔تر
چھبیس فروری 1985 کو معروف ماہر سماجیات ڈاکٹر کرونا چاننا، ماہر معاشیات ڈاکٹر سوشیلا کوشک، معروف رقاصہ سونل مان اور خواتین و اطفال کی ترقی کے لئے کام کرنے والی یونیسیف کی رضیہ اسماعیل سمیت خواتین نے راجیو گاندھی سے اپنے اپنے علاقہ سے وابستہ سوال پوچھنے شروع کر دئے۔ انٹرویو کے لئے 20 منٹ کا وقت مقرر کیا گیا تھا لیکن خوشگوار ماحول میں روانی کے ساتھ ہونے والی یہ گفتگو 45 منٹ تک جاری رہی۔ اس انٹرویو کے بارے میں چاہے جو کہیں، کم از کم اسے طے شدہ ڈھرے پر چلنے والا تو نہیں کہہ سکتے۔
راجیو گاندھی نے اچھے سامع کی طرح ان کی باتیں سنیں اور بڑی ایمانداری اور منطقی طور سے سوچ سمجھ کر جواب دئے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ خواتین کی صورت حال میں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور یقین دلایا کہ ان کی حکومت ایک ایک کر کے ان تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گی۔ دراصل، راجیو گاندھی خود بھی خصوصاً زمینی سطح پر خواتین کے حقوق کے مضبوط حامی تھے۔
انٹرویو ختم ہونے کے بعد راجیو گاندھی نے تمام خواتین کا گرم جوشی کے ساتھ شکریہ ادا کیا اور جب اسے نشر کیا گیا تو ایک ہی طرح کے پروگرام پیش کرنے والے ’دوردرشن‘ پر تازگی کا احساس ہوا۔
انٹرویو کے خاتون پر مبنی فارمیٹ پر تبصرے کئے گئے لیکن راجیو گاندھی کے کرشمنے نے تمام ناقدین کے منہ بند کر دئے۔ تاہم امیتا ملک جیسے ناقدین نے یہ بات ضرور مانی کہ انٹرویو میں ایک ہلکا اشتعال موجود تھا جسے دوردرشن پر پہلے شاید ہی کبھی دیکھا گیا ہو۔ اگلے تین سالوں میں حکومت نے پنچایتی راج میں خواتین کے لئے 33 فیصد ریزرویشن، ملک میں خواتین کی صورت حال پر تحقیق اور اس سے وابستہ اعداد و شمار جمع کرنا اور غیر رسمی علاقہ کی خواتین پر پہلی قومی رپورٹ (افرادی قوت) کی زمین تیار کرنے جیسی تمام اصلاحات شروع کیں، جو خواتین کے لئے ایک واضح قومی پس منظر تیار کرنے میں مددگار ثابت ہوئیں۔
اور پھر راجیو ہمیں چھوڑ کر اچانک چلے گئے۔
لاپرواہی کی وجہ سے انٹرویو کی ریکارڈنگ کھو گئی!
برسوں بعد جب میں ہندوستان کے پبلک براڈکاسٹر آکاشوانی اور دوردرشن کی نگرانی کرنے والے پرسار بھارتی کی چیرمین تھی تو میں نے عہدیداران سے کہا کہ اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے، دوردرشن کے وسیع آرکائیوز سے راجیو گاندھی کے اس انٹرویو کی بنیادی ٹیپ کو تلاش کر کے اسے ڈیجیٹل فارمیٹ میں تبدیل کریں۔ لیکن مجھے اطلاع دی گئی کہ وہ ٹیپ اب دستیاب نہیں ہے۔ شاید غیر دانستہ طور پر ٹیپ کو مٹا کر اس پر کوئی دوسرا پروگرام ریکارڈ کر دیا گیا ہو!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔