’خدارا! جنگی جنون کو نہ بڑھائیں، ورنہ ہر طرف ہیروشیما و ناگاساکی ہوگا‘

پاکستان اور بھارت جوہری ہتھیاروں سے مسلح ہیں۔ آج کل دونوں ممالک میں جنگی جنون عروج پر ہے۔ اب کشیدگی کے بڑھنے سے جنگ کے سائے دونوں ممالک کی ایک ارب پچاس کروڑ کی آبادی کے سر پر منڈلا رہے ہیں۔

پاک بھارت جوہری جنگ دو کروڑ سے زائد جانیں لے سکتی ہے
پاک بھارت جوہری جنگ دو کروڑ سے زائد جانیں لے سکتی ہے
user

ڈی. ڈبلیو

خیال کیا جاتا ہے کہ بھارت کے پاس 130 کے قریب جوہری ہتھیار ہیں جب کہ پاکستان تقریباً 150 تباہ کن ہتھیار رکھتا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس طویل فاصلے کے میزائل بھی ہیں، جس کی بدولت بھارت کراچی، لاہور، اسلام آباد اور ملتان سمیت کئی پاکستانی شہروں کو نشانہ بنا سکتا ہے جب کہ پاکستانی میزائل نئی دہلی، ممبئی، بنگلور اور حیدرآباد سمیت کئی شہروں تک پہنچے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس صورتِ حال کے پیشِ نظر کئی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر جنگ شروع ہوئی تو خدشہ ہے کہ یہ جوہری تصادم کی شکل اختیار کر جائے گی، جس کے نہ صرف خطے بلکہ دنیا بھر میں بھی اثرات مرتب ہوں گے۔

تاریخ میں ایک مرتہ دنیا نے جوہری ہتھاروں سے ہوئی عظیم تباہی کے مناظر دیکھے ہیں۔ امریکہ نے 1945 میں دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپان کے دو شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری بموں کا استعمال کیا تھا۔ ان دونوں شہروں کے نام ہی آج جوہری ہتھیاروں کی تباہی کی علامت بن چکے ہیں۔ اس واقعہ کی یاد آتے ہی جاپان اور دنیا کے لوگوں کی روحیں تک لرز جاتی ہیں۔

امریکی محققین کی 2007 کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان جوہری جنگ ہوتی ہے اور اگر دونوں ممالک اس میں 15 کلو ٹن کے ایک 100 بم استعمال کرتے ہیں، تو ان کی زد میں آ کر دو کروڑ دس لاکھ افراد ہلاک ہوسکتے ہیں جب کہ اوزون کی جھلی بری طرح متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ان دھماکوں کے اثرات سے ماحول میں زبردست تبدیلی رونما ہوسکتی ہے، جس سے دو ارب کے قریب انسان فاقہ کشی کا شکار ہو سکتے ہیں۔

ان تمام حقائق کے باوجود دونوں ممالک میں جنگی جنون عروج پر ہے۔ تاہم اس صورتِ حال پر امن پسندوں کی ایک قلیل اقلیت بہت پریشان ہے۔ معروف گلوکار جواد احمد نے جنگی جنون پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جو لوگ جنگ اور تباہی کا مطالبہ کر رہے ہیں، سب سے پہلے انہیں جنگ میں بھیجا جائے تاکہ انہیں پتہ چلے کہ جنگ کیا ہوتی ہے۔

ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے جواد احمد نے کہا، ’’فیس بک اور ٹویئٹر پر بیٹھ کرجنگ کے نعرے لگانا آسان ہے لیکن ایک عام آدمی کوئی جنگ نہیں چاہتا۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ رہے، اپنی روزی روٹی کمائے۔ آپ پر اگر جنگ مسلط کی جائے تو وہ ایک مختلف بات ہے اور آپ کو اس وقت اپنا دفاع استعمال کرنا چاہیے۔ اس وقت تو ہر ایک لڑتا ہے لیکن اس طرح اپنے دشمن کو للکارنا کہ وہ آئے اور آپ پر حملہ کر کے دکھائے، یہ مناسب نہیں ہے۔‘‘

کئی ناقدین جنگ کو ہتھیاروں کی صنعت سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کا خیال ہے کہ جنگ اس وقت تک ہوتی رہے گی جب تک یہ ہتھیار بنتے رہیں گے۔ جواد احمد ہتھیار سازی کو جنگوں کا ایک بڑا سبب قرار دیتے ہیں، ’’جنگ کی ایک سیدھی سی وجہ تو یہ ہے کہ کچھ سرمایہ دار قیمتی انسانی وسائل ہتھیاروں پر لگا رہے ہیں لیکن دنیا میں اصل مسائل تو بھوک، غربت، بے روزگاری اور مناسب رہائش کی عدم دستیابی ہے۔ جنگ سے اصل فائدہ شاید ان سرمایہ داروں کو ہو لیکن عام آدمی کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہے۔‘‘

ناقدین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں چھ کروڑ سے زیادہ افراد خطِ غربت سے نیچے رہ رہے رہیں ہیں، 40 فیصد بچوں کی مکمل طور پر ذہنی نشوونما نہیں ہو پا رہی ہے جب کہ 38 فیصد کے قریب غذا کی عدم دستیابی کا شکار ہیں۔ بھارت میں سرکاری طور پر 243 ملین افراد خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں (غیر سرکای طور پر یہ تعداد 600 ملین ہے)، 35 فیصد سے زائد افراد مناسب غذا سے محروم ہیں جب کہ آبادی کے ایک بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔


اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف شاعر محمود اظہر کاکہنا ہے کہ اگر دونوں ممالک کو کوئی جنگ کرنی ہے تو وہ غربت اور جہالت کے خلاف کریں۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’دونوں ممالک کو جرمنی، پولینڈ، جاپان، اٹلی، فرانس، سابقہ سوویت یونین اور برطانیہ کی تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ ہمارے لوگوں کے پاس پینے کا صاف پانی تک نہیں ہے اور ہم جنگ کے ڈھول بجا رہے ہیں۔ میں میڈیا سے کہتا ہوں خدارا اس جنگی جنون کو نہ بڑھائیں ورنہ ہر طرف ہیروشیما اور ناگاساکی ہمیں ملے گا۔ مذاکرات کی میز پر آئیں اور اس کشیدگی کو ختم کریں۔‘‘

واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت میں پلوامہ حملے کے بعد سے لیکر اب تک کشیدگی مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بھارت کو کشمیر میں علیحدگی پسندی کا سامنا ہے، جہاں اب تک ہزاروںافراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر پر 3 جنگیں لڑ چکے ہیں جب کہ اس کے علاوہ دو جوہری قوتوں کے درمیان کئی چھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Feb 2019, 10:10 PM