کسان مرے نہ تو کیا کرے! کوئی نہیں خرید رہا گنّا، کسانوں کے 18 ہزار کروڑ روپے بقایہ

مغربی اتر پردیش کے زر خیز علاقہ سسولی میں بھی اگر کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کسان اپنے بدترین حالات میں ہیں

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

سسولی: مظفر نگر ضلع میں واقع قصبہ سسولی کو کسانوں کی راجدھانی کہا جاتا ہے۔ کسانوں کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی تنظیم بھارتیہ کسان یونین (بی کے ڈی) کا صدر دفتر سسولی میں ہی ہے۔ اتر پردیش میں کسانوں کی سب سے بڑی اس تنظیم کے دفتر میں کسانوں کے لئے جد و جہد کرنے میں جان گنوانے والے لوگوں کی تصاویر لگی ہیں اور ان پر شہید لکھا ہوا ہے۔ بھارتیہ کسان یونین کے بانی آنجہانی مہیندر سنگھ ٹکیت سسولی کے ہی رہائشی تھے اور ان کی قیادت میں کسانوں نے کئی بار اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا تھا۔ مہیندر سنگھ ٹکیت کے فرزند نریش ٹکیت اب اس تنظیم کے صدر ہیں۔ اترپردیش کے ایک وزیر اعلیٰ کو کروے (مٹی کے برتن) میں پانی پلانے اور پوری طاقت لگاکر بھی چودھری ٹکیت کو گرفتار نہ کر پانے جیسے واقعات کی وجہ سے سسولی اکثر زیر بحث رہا کرتا تھا۔

اسی سسولی کے ایک کسان اوم پال نے گنے کی پرچی نہ ملنے پر معاشی حالت خراب ہونے پر خود کشی کر لی۔ مغربی اتر پردیش میں رونما ہونے والے اس واقعہ نے علاقہ میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ کسان سوال کر رہے ہیں کہ اگر سسولی میں بھی ایسا المناک واقعہ پیش آ سکتا ہے تو کسان حقیقت میں بہت بڑے بحران سے دو چار ہیں۔


گنے کی کھیتی کرنے والے کسان کے خاندان میں دو بیٹیاں اور بیوی ہے۔ اس کا گنا کھیت میں کھڑا خشک ہو رہا تھا جس سے وہ ذہنی طور پر پریشان تھا۔ قصبہ سسولی اتر پردیش کے گنا وزیر سریش رانا کے حلقہ انتخاب کے بہت نزدیک ہے ایسے حالات میں چودھری مہیندر سنگھ ٹکیت کے گاؤں کے ایک کسان کی طرف سے ٖخودکشی کر لینا مرکزی اور ریاستی حکومت کی پالیسیوں پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ کسان کی موت کے بعد موقع پر پہنچے وزیر سنجیو بالیان اور دیگر رہنماؤں کی کاوشوں سے اوم پال کے اہل خانہ کو 5 لاکھ روپے کی امداد تو مل گئی مگر اسی طرح کے مسائل سے دو چار دوسرے کسانوں کو کوئی راہ نظر نہیں آتی۔

سسولی کی نئی بستی، پٹی چودھریان کے رہنے والے اوم پال 55 سال کے تھے۔ وہ اپنے تینوں بھائیوں سمیت تقریباً 35 بیگھہ زمین پر کھیتی کرتے تھے۔ جمعرات کی دوپہر کو تقریباً 3 بجے وہ ھیل پر گیا مگر واپس نہیں آیا۔ بعد میں شمشان گھاٹ روڈ پر واقعہ ایک کھیت میں اس کی لاش پھندے پر لٹکتی ہوئی برآمد ہوئی۔ کسان رہنما اجیت راٹھی نے بتایا کہ ان کی ڈھائی بیگھہ زمین پر گنا کھڑا تھا۔ کھتولی شوگر مل نے پیرائی بند کرنے کا انتباہ جاری کر دیا اور گاؤں میں لگے تول کے کانٹے بھی اکھاڑ لئے گئے۔ ادھر کولہو مالکان نے بھی گنا خریدنے سے منع کر دیا۔ اس سے اوم پال تناؤ میں آ گیا اور اس نے خود کشی کر لی۔ مہلوک اوم پال کے بھائی جے ویر کی طرف سے کھتولی شوگر مل کے نائب صدر ڈاکٹر اشوک کمار اور جنرل منیجر کلدیپ راٹھی کے خلاف تھانہ میں تحریر دی ہے۔


بی کے ڈی کے صدر چودھری نریش ٹکیت نے خودکشی کرنے والے کسان کی ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرتے ہوئے کہا ’’غریب کسان نے اپنی جان دے دی۔ چھوٹے ہی نہیں بڑے کسان بھی آج مصیبت میں ہیں، کسانوں کے اس سے برے حالات اور کیا ہو سکتے ہیں۔ اس کے لئے حکومت ذمہ دار ہے۔ فصلوں کے واجب داموں نہ ملنے، پیمنٹ نہ ہونے، بجلی کے بل زیادہ آنے جیسے مسائل سے گھرے کسان خود کشی جیسے اقدام اٹھانے پر مجبور ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ بجلی کے بل معاف کر دئے جائیں اور غریب کسانوں کو مفت میں بجلی فراہم کی جائے۔ معاشی طور پر کمزور کسانوں کی نشاندہی کر کے حکومت کو ان کی ہر ممکن مدد کرنی چاہئے۔‘‘

سماجوادی پارٹی کے رہنما چندن چوہان نے کہا ’’اوم پال کی گنے کی فصل کھیت میں سوکھ رہی تھی اور گنا کوئی نہیں خرید رہا تھا۔ وہ لگاتار تناؤ میں تھا۔ کسانوں کے ہزاروں کروڑ روپے دباکر کئی چینی ملیں بند ہو چکی ہیں۔ پھولی کی کھیتی برباد ہو چکی ہے، تربوز اور خربوزوں کی کھیتی کرنے والے کسان اس بار تباہ ہو گئے ہیں۔ کسان اس وقت ذہنی طور پر بہت پریشان ہیں۔‘‘


ادھر، انتظامیہ کی طرف سے ان انزامات کی تردید کی جا رہی ہے۔ مظفرنگر کی ضلع مجسٹریٹ سیلوا کماری کی جاری کی گئی ویڈیو کے مطابق کسان کا بنیادی کوٹہ 143 کوئنٹل ہے اور مارچ میں اضافی 13.4 کوئنٹل جاری کیا گیا ہے۔ کل 156.4 کوئنٹل بیسک کوٹہ جاری ہوا ہے۔ اس میں کسان نے 149 کوئنٹل گنے کی ترسیل کی ہے۔ نو کوئنٹل کی پرچی پر کسان کو 7 اپریل کو بھی جاری کی گئی تھی۔ کسان نے اپنے کوٹے سے 20 کوئنٹل گنے کی فراہمی نہیں کی۔ ضلع مجسٹریٹ کا کہنا ہے کہ اس خود کشی کی وجوہات خاندان میں رنجش ہونا ہے، واقعہ کی جانچ کی جا رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


    Published: 06 Jun 2020, 9:11 PM