بابری مسجد معاملہ سے وابستہ اسماعیل فاروقی فیصلہ کیا ہے؟
سپریم کورٹ میں ایودھیا کے بابری مسجد-رام جنم بھومی اراضی مالکانہ حقوق معاملہ پر سماعت کے دوران ’اسماعیل فاروقی فیصلہ‘ کا ذکر بار بار کیا جا رہا ہے۔ آئیے جانتے ہیں کیا ہے یہ فیصلہ؟
گزشتہ روز سپریم کورٹ کو یہ طے کرنا تھا کہ 1994 میں آئے اسماعیل فاروقی فیصلہ (نماز مسجد میں پڑھنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے) کو نظر ثانی کے لئے بڑی بینچ میں بھیجا جائے یا نہیں۔ مسلمانوں نے اس معاملہ کو بڑی بینچ میں بھیجنے کی درخواست عدالت سے کی تھی جبکہ ہندوؤں نے اس کی مخالفت کی تھی۔ عدالت عظمی کی تین رکنی بینچ نے اکثریتی فیصلے سے یہ درخواست مسترد کر دی اور کہا کہ بابری مسجد حق ملکیت معاملے سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا اور جسٹس اشوک بھوشن نے اس معاملہ کو بڑی بینچ میں بھیجنے سے انکار کیا جب کہ جسٹس عبدالنظیر نے بڑی بنچ کو بھیجنے سے اتفاق کیا۔
عدالت نے کہا، ’’ 1994میں اسماعیل فاروقی معاملہ میں جو فیصلہ آیا تھا اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس وقت اسماعیل فاروقی بنام یونین آف انڈیا معاملہ میں سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ کہ ’مسجد میں نماز ادا کرنا اسلام کا اہم جز نہیں‘ لینڈ ایکویزیشن کے حوالے سے تھا لہذا اُس تبصرہ کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘
ایودھیا میں ہندو کارسیوکوں نے 6 دسمبر 1992 کو بابری مسجد کو منہدم کر دیا تھا۔ اس کے بعد مرکزی حکومت نے 7 جنوری 1993 کو آرڈیننس لا کر مسجد کی زمین کے پاس کی 67 ایکڑ زمین کو ایکوائر کر لیا۔ اس ایکویزیشن میں زمین کا وہ حصہ بھی تھا، جہاں بابری مسجد موجود تھی اور جسے آج بابری مسجد۔رام جنم بھومی احاطہ کہا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: عدالت نے ایک بار پھر واضح کر دیا کہ بابری مسجد معاملہ عقیدت نہیں ملکیت کا: مولانا ارشد مدنی
مرکزی حکومت کے اس فیصلہ کو اسماعیل فاروقی نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اپنی عرضی میں کہا تھا کہ حکومت کسی مذہبی مقام کو ایکوائر نہیں کر سکتی۔ اس معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا تھا کہ مسجد میں نماز ادا کرنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے لہذا مسجد کی زمین کو بھی حکومت اگر چاہے تو ایکوائرکر سکتی ہے۔ واضح رہے کہ سن 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ نے اسماعیل فاروقی فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے مسجد اراضی سمیت 67 ایکڑ زمین کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم سنایا تھا۔
ہائی کورٹ کے فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔ سپریم کورٹ میں ہندو فریق کی جانب سے کہا گیا کہ الہ آباد ہائی کورٹ اسماعیل فاروقی معاملہ کی روشنی میں فیصلہ سنا چکا ہے، جس میں یہ کہا گیا تھا کہ مسجد میں نماز پڑھنا اسلام کا لازمی جز نہیں ہے لہذا یہاں بھی اسی کی روشنی میں فیصلہ کیا جانا چاہیے اور اجودھیا کی زمین ہندؤں کو دی جانی چاہیے۔
ہندو فریق کی دلیل کے بعد مسلم فریق کے وکیل نے سپریم کورٹ میں کہا کہ اسماعیل فاروقی کیس میں اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح ہوئی ہے۔ یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ مسجد میں نماز پڑھنا اسلام کا اہم جز نہیں ہے، لہذا سپریم کورٹ کی وسیع تر بینچ میں اس معاملہ کو بھیج کر فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
اب سپریم کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ صاف کر دیا ہے کہ اسماعیل فارقی معاملہ صرف اور صرف لینڈ ایکویزیشن سے وابستہ تھا اور اس کا مسجد اراضی کے مالکانہ حقوق طے کرنے میں کوئی اثر نہیں پڑے گا۔
اس فیصلے کے بعد بابری مسجد۔رام جنم بھومی کی اراضی حق ملکیت معاملے کی سماعت کا راستہ صاف ہو گیا ہے، اب اس معاملہ کی سماعت 29 اکتوبر سے کی جائے گی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 28 Sep 2018, 8:57 AM