گجرات کے نتائج اور مسلمان: امید کی کرن، لیکن...

<p>گجرات اسمبلی انتخابات کے نتائج جن کابے صبری سے انتظار تھا، آ چکے ہیں اور نتائج کا پوسٹ مارٹم جاری ہے۔ اقلیتوں کی نظر میں ان نتائج کی کیا اہمیت ہے اور ان پر وہ کیا سوچتے ہیں یہ ایک بڑا سوال ہے۔</p>

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

سید خرم رضا

ملک میں گزشتہ کچھ سالوں سے جو ایک خوف کا ماحول ہے اس میں کیا کوئی تبدیلی آئے گی ان نتائج کے بعد۔ معروف صحافی سیما مصطفی کی رائے ہے’’دراصل ایک چناؤ کے نتائج سے کوئی زیادہ فرق نہیں پڑتا اور نہ ہی اس کا تعلق صرف ملک کی اقلیتوں سے ہے اس کا تعلق سماج کے ان تمام طبقات سے ہے جو حاشیہ پر ہیں جو پسماندہ ہیں اور اصل نشانے پر سماج کا یہ کمزور طبقہ ہے‘‘۔ حقیقت یہ ہی ہے کہ جب پورے ملک کی فضا میں ڈر ہو تو اس کا اثر ملک کے ہر طبقہ اور ہر شعبے پر پڑتا ہے۔ سینئر صحافی شاہد صدیقی کا ماننا ہے کہ یہ نتائج امید کی سیاست کی جانب ایک چھوٹا سا قدم ہے’’سیکولر نقطہ نظر سے اقلیتوں کے لئے اچھے نتائج ہیں اور ایک امید کی کرن نظر آئی ہے یعنی نفرت کی سیاست سے ہم امید کی سیاست کی طرف ایک قدم بڑھے ہیں۔ راستہ تو منتخب ہوا ہے لیکن راستہ بہت لمبا ہے اور بہت مشکل ہے۔ گجرات کی اقلیتوں نے ہمیشہ بہت سنجیدگی اور بردباری سے انتخابا ت میں حصہ لیا ہے اور خاموش سیاست کی ہے۔ جہاں تک ملک کے ماحول کا تعلق ہے تو اس میں ابھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور یہ نتائج صرف ایک چھوٹا سا قدم ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ یہاں سے کہاں جاتے ہیں‘‘۔

دہلی کی شاہی جامع مسجد کے امام احمد بخاری کا ماننا ہے کہ اقلیتوں کی موجودہ صورتحال کے لئے تو زیادہ سیکولر پارٹیاں ہی ذمہ دار ہیں’’دیکھئے حکومت کرنے کا جو طریقہ ہے اس سے اقلیتوں میں خوف کا ماحول ہے لیکن اچھی بات یہ ہے کہ اس نے حوصلہ نہیں چھوڑا ہے۔ خوف اس معنی میں ہے کہ جس طرح ملک میں نفرت کا ماحول بنایا جا رہا ہے اور الیکشن ہندوبنام مسلمان پر لڑا جا رہا ہے اور ان مدوں کو اٹھایا گیا جو مدے تھے ہی نہیں۔ ملک میں جو ماحول بن رہا ہے اخلاق سے لے کرافروزل تک وہ بہت خراب ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آ رہی ہے۔ یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ حکومت ملک کو کدھر لے کر جا رہی ہے اور وہ اقلیتوں سے کیا چاہتی ہے۔ اقلیتوں کو کسی کے نہ ہارنے پر کوئی غم ہے نہ جیتنے کی کوئی خوشی کیونکہ اقلیتوں کے ساتھ سب کا رویہ تو یکسا ں رہا ہے۔ اقلیتوں کی موجودہ صورتحال کے لئے تو اصل ذمہ دار وہ پارٹیاں ہیں جو ابھی تک سیکولرزم کا نعرہ دیتی رہیں اور اقلیتوں کا استحصال کرتی رہیں‘‘۔

گجرات کے تاجر توقیر صدیقی ان نتائج سے بہت مطمین ہیں ’’اگر ہم شارٹ ٹرم میں دیکھیں گے تو ہمیں ایسا لگے گا کہ نتائج ہمارے لئے اچھے نہیں ہیں لیکن گہرائی سے غور کرنے کے بعد محسوس ہوا کہ لانگ ٹرم میں نتائج اقلیتوں کے لئے بہت ہی اچھے ہیں۔ یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اگر کانگریس جیت بھی جاتی تو وہ کم فرق سے ہی جیت پاتی اور وہ 95-94 سیٹیں ہی لا پاتی اور بی جے پی آئے دن ہنگامہ کرتی اور حکومت نہیں چلانے دیتی۔ تین طرف سے پریشانی آتی ایک تو ہاردک پٹیل ناک میں دم کر دیتا اور پورا کریڈٹ ہاردک کو جاتا، دوسری طرف کیونکہ مرکز میں بی جے پی کی حکومت ہے تو وہی ہوتا جو دہلی کی حکومت کے ساتھ ہو رہا ہے اور گجرات حکومت کو کام نہیں کرنے دیا جاتا اور تیسرا یہ خطرہ بھی برقرار رہتا کہ بہار کے انداز میں کب حکومت گرا دی جاتی یعنی پانچ سال تک کیا 2019 تک بھی یہ حکومت نہیں چل پاتی۔ ہمارا مقصد یہ ہونا چاہئے کہ قوم پرست طاقتوں کو شکست ہونی چاہئے۔ اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں کہ شروعات بہت اچھی ہے کیونکہ اس تبدیلی کا اثر اب جن ریاستوں میں انتخابات ہونے ہیں وہاں نظر آئے گا اور تمام ریاستوں میں اب کانگریس کے جیتنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں‘‘۔ ویسے حیدرآباد کے سینئر صحافی سجاد حسنین گجرات کے نتائج کو لے کر زیادہ خوش نہیں ہیں ’’ان نتائج سےاقلیتوں کا اعتماد بالکل بحال نہیں ہوا ہے اور اعتماد ابھی متزلزل ہی ہے۔ جس طرح پورے ملک کا ماحول ہے اس پر ان نتائج کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ گجرات میں تاجر برادری جی ایس ٹی کو لے کرجس طرح ناراض نظر آ رہی تھی وہ ناراضگی نتائج میں نظر نہیں آئی۔ اس مین شک نہیں کہ بی جے پی کو جھٹکا لگا ہے لیکن اقلیتوں میں ابھی بھی ایک مایوسی ہے کہ 22سال بعد بھی بی جے پی نے اقتدار اپنے پاس برقرار رکھا ہے۔ انتخابات کے دوران ہی طلاق ثلاثہ پر بحث شروع ہو گئی یعنی مسلمانوں کو مرکز میں رکھا اور یہ تشویش کی بات ہے۔نتائج سے ان کے حوصلے بلند ہو گئے ہیں اور ان کی حکمت عملی سے واضح ہے کہ وہ اپنے ہندوتوا کے ایجنڈے پر آگے بڑھیں گے۔ ان نتائج سے اقلیتوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور اب تمام امیدیں 2019کے عام انتخابات سے ہیں‘‘۔

لکھنؤ کے سینئر صحافی حسین افسر اس کے بالکل برعکس سوچتے ہیں’’ان نتائج سے ملک کے مسلمانوں کا تھوڑا اعتماد بحال ہو اہے۔ان نتائج سے بی جے پی اور وزیر اعظم مودی کو بھی اندازہ ہو گیا ہوگا کہ وہ خود کتنے پانی میں ہیں۔ دیکھئے مودی جیتے ہیں مسلمانوں کی ہی وجہ سے۔ ان کو اورنگ زیب نے جتایا، خلجی نے جتایا، منموہن سنگھ کی خفیہ میٹنگ نے جتایا، تاج محل نے جتایا، پدماوتی نے جتایا۔ اقلیتوں کا جہاں تک تعلق ہے تو وہ مایوسی سے باہر آئی ہے اور امید کی سمت گامزن ہے۔ اقلیتیں اب کانگریس کی جانب دیکھ رہی ہے۔ ان انتخابات نے راہل کی قیادت پر جو سوال تھے ان کو سرے سے ختم کر دیا ہے۔ راہل نے پوری انتخابی مہم کے دوران ایک معیار بنائے رکھا۔ اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2019کے لئے نیااور مضبوط محاذ بن سکتا ہے۔ سوراشٹر میں جو کانگریس جیتی ہے اور بی جے پی کو جھٹکا لگا ہے اس میں 25فیصد اقلیتوں نے ووٹ دئے ہیں۔ گجرات کے اس حصے میں اقلیتوں کی تعداد خاصی ہے اور یہاں پر مسلمانوں نے کانگریس کو ووٹ دیا ہے جس کی وجہ سے یہاں سے کانگریس کو زیادہ سیٹیں ملی ہیں‘‘۔

ممبئی کے سینئر صحافی دانش ریاض کا کہنا ہے کہ’’دیکھئے گجرات مسلسل آر ایس ایس کی آماجگاہ رہا ہے اور جس انداز سے آر ایس ایس نے محنت کی اور امت شاہ کا جو دعوی تھا کہ بی جے پی 150سیٹیں جیتے گی لیکن جس طرح وہ سو سیٹوں سے بھی کم رہی ہے اس سے ایک بات واضح ہے کہ لوگوں میں مایوسی ہے۔ میرا اپنا یہ ماننا ہے کہ انتخابات کارپوریٹ گھرانے کھیل رہے ہیں اور کارپوریٹ گھرانوں کو اس بات کا احساس ہے کہ حکومت کو تھوڑا جھٹکا لگنا چاہئے تو وہ اس حساب سے کام کر رہے ہیں۔ یہ نتائج موجودہ حکومت کو دھمکانے کے لئے بھی ہیں۔ جہاں تک اقلیتوں کا تعلق ہے تو جس طرح اقلیتوں کے ووٹوں کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی وہ کسی بھی طورسے اچھا نہیں ہے‘‘۔

گجرات کے متحرک سماجی کارکن زبیر گوپلانی ان نتائج کو لے کر پر امید ہیں’’اقلیتیں ان نتائج سے مایوس نہیں ہے۔ اقلیتوں نے کانگریس کے لئے انتہائی جارحانہ طریقہ سے ووٹنگ کی ہے لیکن پھر بھی ان کے ذہن میں ہے کہ وہ اکیلے ہیں۔ کانگریس اقلیتوں کے ساتھ اکیلی کب تک چلے گی۔ یہ نتائج امید افزا ہیں کیونکہ ابھی تک یہ تھا کہ مودی کو گجرات میں کوئی نہیں روک سکتا لیکن ان نتائج نے یہ امید جگائی ہے‘‘۔

گجرات سیاست کے ایڈیٹرعبدل حافظ لکھانی ان نتائج پر حیران ہیں’’گجرات کے جو نتائج آئے ہیں وہ کافی حیرانی والے ہیں۔ کانگریس نے جو اقلیتوں کو نظرانداز کیا تھا اس سے کانگریس کو نقصان ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے ووٹ فیصد میں گزشتہ انتخابات کے مقابلے گراوٹ آئی ہے اور اس مرتبہ اقلیتوں کا ووٹ فیصد 4 فیصد کم ہوا ہے۔ اقلیتوں کو اس پر اعتراض نہیں ہے کہ راہل گاندھی مندر گئے اور 27مندروں کی خاک چھانی۔ لیکن راہل گاندھی نے پورے انتخابات میں لفظ مسلم تک استعمال نہیں کیا یہ ایک تشویش کی بات ہے۔ خاص طور سے راجستھان میں جو افروزل کا قتل کر کے جلانے کا واقعہ پیش آیا اس کا تک کوئی ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے مودی پر صرف جی ایس ٹی اور نوٹ بندی پر حملہ کیا کبھی اقلیتوں کے ان مدوں پر نہیں کیا۔ ان نتائج کا اقلیتوں پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ سیٹ کم ہوتی ہیں یا زیاد ہوتی ہیں اس سے اقلیتوں پر زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ ان نتائج کا اثر بی جے پی پر ضرور پڑے گا‘‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 21 Dec 2017, 9:05 AM