عمران خان پر قاتلانہ حملے کے تعلق سے کیا سوچتے ہیں امریکی مبصرین
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان پر قاتلانہ حملے کی بین الااقوامی سطح پر جہاں مذمت کی جا رہی ہے، وہیں مبصرین اس واقع کی سیاسی صورت حال کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔
واشنگٹن میں پاکستانی امور کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان پر ہونے والا قاتلانہ حملہ ملکی سیاست پر کئی طرح کے اثرات مرتب کر سکتا ہے۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ ملکی قیادت کی طرف سے کشیدہ سیاسی ماحول میں زیادہ ذمہ دارانہ رویے کا تقاضا کرتا ہے۔
امریکی دارالحکومت میں قائم تھنک ٹینک "مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ" کے پاکستان اور افغانستان اسٹڈیز کے ڈائریکٹر ڈاکٹر مارون وائن بام کہتے ہیں کہ ایک طرف توعمران خان پر حملہ سیاسی تشدد کو ہوا دے سکتا ہے اور دوسری جانب پی ٹی ائی کے رہنما اس سے سیاسی فائدہ بھی اٹھا سکتے ہیں۔
مزید وضاحت کرتے ہوئے وائن بام نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس واقعہ سے عمران خان کو عوامی ہمدردی حاصل ہو سکتی ہے اور ان کے مطالبات منوانے کی مہم کو مزید تقویت مل سکتی ہے کیونکہ اس سے ان کے سازشی بیانیہ کو پذیرائی ملے گی۔
دوسری طرف ان کے خیال میں لوگ کہیں گے کہ عمران خان پر یہ حملہ ایک پر امن ریلی کے دوران ہوا، لہذا لوگ ان کی حمایت میں سخت ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں۔ جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کا تعلق ہے تو ان پر بھی دباؤ بڑھے گا کیونکہ پاکستان کی فوج ملک میں امن و امان کی صورت حال کو بگڑتے دیکھنا نہیں چاہے گی۔
وائن بام نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی قیادت اب اس بات کی طرف بڑھے گی کہ مذاکرات کیے جائیں اور اگلے سال اگست سے پہلے کی عام انتخابات کی کوئی تاریخ دے دی جائے۔ ان کے خیال میں ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے اگلے سال موسم بہار کے وقت عام انتخابات کی تاریخ طے ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ عمران خان اور ان کی پارٹی کے رہنما ملک میں عام انتخابات جلد از جلد کروانے کے مطالبہ لے کر لانگ مارچ کے دوران پنچاب کے مختلف شہروں سے گزرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب جا ر ہے تھے کہ جمعرات کو وزیر آباد میں ان پر حملہ کیا گیا۔ پولیس کے مطابق مبینہ حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
واشنگٹن میں تحقیقی ادارے "ووڈرو ولسن سنٹر" میں ساوتھ ایشیا انسٹی ٹیوٹ کےڈائریکٹر مائیکل کوگل مین نے کہا کہ اب پاکستانی فوج پر مزید دباو آئے گا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا فوج موجودہ اتحادی حکومت اور عمران خان کے درمیان کسی قسم کی افہام و تفہیم پیدا کرنے کی جانب کام کرے گی؟
(بشکریہ وائس آف امریکہ، اردو)
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔