جو بات دل سے نکلتی ہے وہ دل میں اترتی ہے: راہل گاندھی

’’میری بھارت ماتا زمین کا ٹکڑا بھر نہیں، کچھ نظریات کا گچھا بھر بھی نہیں ہے، نہ ہی کسی ایک مذہب، ثقافت یا مخصوص تاریخ کا بیان، نہ ہی کوئی خاص ذات بھر۔‘‘

<div class="paragraphs"><p>راہل گاندھی، تصویر ٹوئٹر INCIndia</p></div>

راہل گاندھی، تصویر ٹوئٹر INCIndia

user

قومی آواز بیورو

کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے 15 اگست کی دوپہر سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر ایک پوسٹ شیئر کیا جس میں اپنی ’بھارت جوڑو یاترا‘ اور اس کے تجربات کا تفصیل سے تذکرہ کیا ہے۔ اس ٹوئٹ میں انھوں نے 4 صفحات کی تحریر ڈالی ہے جس میں خاص طور سے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کا بھی تذکرہ ہے اور اتحاد و سالمیت کی بھی بات کہی گئی ہے۔ ہندی زبان میں لکھے گئے ان 4 صفحات میں راہل گاندھی نے کئی اہم باتیں لکھی ہیں جس کا اردو ترجمہ ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بھارت ماتا

ہر ایک ہندوستانی کی آواز

’جو بات دل سے نکلتی ہے وہ دل میں اترتی ہے‘

گزشتہ سال اپنے گھر، یعنی بھارت ماتا کے آنگن میں، میں 145 دن تک پیدل چلا۔ ساحل سمندر سے میں نے شروعات کی اور دھول، دھوپ، بارش سے ہو کر گزرا۔ جنگلوں، چوراہوں، شہروں، کھیتوں، گاؤں، ندیوں اور پہاڑوں سے ہوتے ہوئے میں محبوب کشمیر کی نرم برف تک پہنچا۔

راستے میں کئی لوگوں نے مجھ سے پوچھا: یہ آپ کیوں کر رہے ہیں؟ آج بھی کئی لوگ مجھ سے یاترا کے ہدف کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کیا تلاش کر رہے تھے؟ آپ کو کیا ملا؟ دراصل میں اس چیز کو سمجھنا چاہتا تھا جو میرے دل کے اتنے قریب ہے، جس نے مجھے موت سے آنکھ ملانے اور ’چریویتی‘ (چلتے رہو) کی ترغیب دی، جس نے مجھے درد اور بے عزتی سہنے کی طاقت دی۔ اور جس کے لیے میں سب کچھ قربان کر سکتا ہوں۔


سالوں سے روزانہ ورزش میں تقریباً ہر شام میں 10-8 کلومیٹر دوڑ لگاتا رہا ہوں۔ میں نے سوچا: بس ’25‘؟ میں تو آرام سے 25 کلومیٹر چل لوں گا۔ میں پراعتماد تھا کہ یہ ایک آسان پد یاترا ہوگی۔ لیکن جلد ہی درد سے میرا سامنا ہوا۔ میرے گھٹنے کی پرانی چوٹ، جو طویل علاج کے بعد ٹھیک ہو گئی تھی، پھر سے ابھر آئی۔ اگلی صبح، لوہے کے کنٹینر کی تنہائی میں میری آنکھوں میں آنسو تھے۔ باقی بچے 3800 کلومیٹر کیسے چلوں گا؟ میرا تکبر ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا تھا۔

بھنوسارے ہی پد یاترا شروع ہو جاتی تھی (اور ٹھیک اس کے ساتھ ہی درد بھی) ایک بھوکے بھیڑے کی طرح درد ہر جگہ میرا پیچھا کرتا اور میرے رکنے کا انتظار کرتا۔ کچھ دنوں بعد میرے پرانے ڈاکٹر دوست آئے، انھوں نے کچھ مشورے بھی دیے۔ مگر درد جس کا تس۔

لیکن تبھی کچھ انوکھا تجربہ ہوا۔ یہ ایک نئی یاترا کی شروعات تھی۔ جب بھی میرا دل ڈوبنے لگتا، میں سوچتا کہ اب اور نہیں چل پاؤں گا، اچانک کوئی آتا اور مجھے چلنے کی طاقت دے جاتا۔ کبھی خوبصورت لکھاوٹ والی آٹھ سال کی ایک پیاری بچی، کبھی کیلے کے چپس کے ساتھ ایک بزرگ خاتون، کبھی ایک آدمی، جو بھیڑ کو چیرتے ہوئے آئے، مجھے گلے لگائے اور غائب ہو جائے۔ جیسے کوئی خاموش اور نظر نہ آنے والی طاقت میری مدد کر رہی ہو، گھنے جنگلوں میں جگنوؤں کی طرح وہ ہر جگہ موجود تھی۔ جب مجھے واقعی اس کی ضرورت تھی یہ طاقت میری راہ روشن کرنے اور مدد کرنے وہاں پہلے سے تھی۔

پد یاترا آگے بڑھتی گئی۔ لوگ اپنے مسائل لے کر آتے رہے۔ شروعات میں میں نے سب کو اپنی بات بتانی چاہی۔ میں نے انھیں بہت سمجھنے کی کوشش کی۔ میں نے لوگوں کی پریشانیوں اور ان کی ترکیبوں پر باتیں کیں۔ جلد ہی لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی اور میرے گھٹنے کا درد بدستور، ایسے میں، میں نے لوگوں کو محض دیکھنا اور سننا شروع کر دیا۔ یاترا میں شور بہت ہوتا تھا۔ لوگ نعرے لگاتے، تصویریں کھینچتے، باتیں کرتے، دھکا دیتے چلتے۔ روز کا یہی معمول تھا۔ روزانہ 10-8 گھنٹے میں صرف لوگوں کی باتیں سنتا اور گھٹنے کے درد کو نظر انداز کرنے کی کوشش کرتا۔


پھر ایک دن میں نے ایکدم انجانے اور حیرت انگیز خاموشی کا تجربہ کیا۔ سوائے اس شخص کی آواز کے، جو میرا ہاتھ پکڑے مجھ سے بات کر رہا تھا، مجھے اور کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میرے اندر کی آواز، جو بچپن سے مجھ سے کچھ کہتی سنتی آ رہی تھی، خاموش ہونے لگی۔ ایسا لگا جیسے کوئی چیز ہمیشہ کے لیے چھوٹ رہی ہو۔

وہ ایک کسان تھا اور مجھے اپنی فصل کے بارے میں بتا رہا تھا۔ اس نے راتے ہوئے کپاس کی سڑی ہوئی لڑیاں دکھائیں، مجھے اس کے ہاتھوں میں برسوں کی تکلیف دکھائی پڑی۔ اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر اس کا خوف میں نے محسوس کیا۔ اس کی آنکھوں کے کٹورے تمام بھوکی راتوں کا حال بتاتے تھے۔ اس نے کہا کہ اپنے بستر مرگ پر پڑے والد کے لیے وہ کچھ بھی نہیں کر پایا۔ اس نے کہا کہ کبھی کبھی اپنی بیوی کو دینے کے لیے اس کے ہاتھ میں ایک کوڑی بھی نہیں ہوتی۔ شرمندگی اور پریشانی کے وہ لمحات جو اس نے اپنی شریک حیات کے سامنے محسوس کیے، مانو میرے دل میں کوندھ گئے۔ میں کچھ بول نہیں پایا۔ بے بس ہو کر میں رکا اور اس کسان کو بانہوں میں بھر لیا۔

اب بار بار یہی ہونے لگا۔ اجلی ہنسی والے بچے آئے، مائیں آئیں، طلبا آئے، سب سے مل کر یہی جذبہ بار بار مجھ تک آیا۔ ایسا ہی تجربہ دکانداروں، بڑھئی، موچیوں، نائیوں، کاریگروں اور مزدوروں کے ساتھ بھی ہوا۔ فوجیوں کے ساتھ یہی محسوس ہوا۔ اب میں بھیڑ کو، شور کو اور خود کو سن ہی نہیں پا رہا تھا۔ میری توجہ اس شخص سے ہٹتی ہی نہیں تھی جو میرے کان میں کچھ کہہ رہا ہوتا۔ آس پاس کا شور غل اور میرے اندر چھپا ہوا اہرنش مجھ پر فیصلے دینے والا آدمی، نہ جانے کہاں غائب ہو چکا تھا۔ جب کوئی طالب علم کہتا کہ اسے فیل ہونے کا خوف ستا رہا ہے، مجھے اس کا خوف محسوس ہوتا۔ چلتے چلتے ایک دن سڑک پر بھیک مانگنے کو مجبور بچوں کا ایک جھنڈ میرے سامنے آ گیا۔ وہ بچے ٹھنڈ سے کانپ رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر میں نے طے کیا کہ جب تک ٹھنڈ برداشت کر سکوں گا، یہی ٹی شرٹ پہنوں گا۔

میری عقیدت کی وجہ اچانک خود بہ خود مجھ پر ظاہر ہو رہی تھی۔ میری بھارت ماتا زمین کا ٹکڑا بھر نہیں، کچھ نظریات کا گچھا بھر بھی نہیں ہے، نہ ہی کسی ایک مذہب، ثقافت یا مخصوص تاریخ کا بیان، نہ ہی کوئی خاص ذات بھر۔ بلکہ ہر ایک ہندوستانی کی پارہ پارہ آواز ہے بھارت ماتا، چاہے وہ کمزور ہو یا مضبوط۔ ان آوازوں میں گہرے پیٹھ کی جو خوشی ہے، جو خوف اور جو درد ہے، وہی ہے بھارت ماتا۔


بھارت ماتا کی یہ آواز سب جگہ ہے۔ بھارت ماتا کی اس آواز کو سننے کے لیے آپ کی اپنی آواز کو، آپ کی خواہشات کو، آپ کی امیدوں کو خاموش ہونا پڑے گا۔ بھارت ماتا ہر وقت بول رہی ہیں۔ بھارت ماتا کسی اپنے کے کان میں کچھ نہ کچھ بدبداتی ہیں، مگر تبھی جب اس اپنے کی روح پوری طرح سے پرسکون ہو، جیسے ایک دھیان میں گم انسان کی خاموشی۔

سب کچھ کتنا آسان تھا۔ بھارت ماتا کی روح کا وہ موتی جسے میں اپنے اندر کی ندی میں تلاش رہا تھا، صرف بھارت ماتا کی سبھی اولادوں کے ہہراتے ہوئے نہ ختم ہونے والے سمندر میں ہی پایا جا سکتا ہے۔

- راہل گاندھی، وائناڈ سے کانگریس رکن پارلیمنٹ

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔