ولی رحمانی: ’ہر فن مولا شخصیت ‘... شاہد الاسلام
خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں بن جانے کے بعد مولانا ولی رحمانی نے یوں تو باضابطہ سیاست سے توبہ کرلی، لیکن ماضی قریب تک بے ضابطہ ہی سہی سیاست سے ان کا تعلق قائم رہا۔
شاہد الاسلام
مولانا محمد ولی رحمانی نہیں رہے۔ کورونا سے محفوظ رہنے کے لئے انہوں نے 18 مارچ کو پٹنہ میں ویکسین لی تھی، مگر چند دنوں کے بعد ہی یہ خبر آئی کہ موصوف علیل ہوگئے ہیں۔ پھر یہ اطلاع بھی آگئی کہ انہیں کورونا ہوگیا ہے۔ ملت اسلامیہ ہند کے درمیان دعاؤں کا ایک سلسلہ بھی شروع ہوا۔ جمعہ کے روز پوری قوم نے حضرت کی شفایابی کے لئے خصوصی دعاؤوں کا اہتمام بھی کیا، لیکن قادر مطلق نے کسی ایک کی بھی نہ سنی اور جمعہ کے روز یہ خبر آ گئی کہ موصوف جانبر نہ ہو سکے اور انتقال فرما گئے۔
مولانا ولی رحمانی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ موصوف 1991 سے خانقاہ رحمانی مونگیر کے سجادہ نشیں کے عہدہ پر فائز تھے۔ انہوں نے چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک سرگرم اور فعال سیاسی، سماجی و روحانی زندگی گزاری۔ ان سے قربت رکھنے والوں کا دعویٰ تو یہ بھی ہے کہ موصوف نے 1972 سے ہی آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ میں اہم کردار ادا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ تب ان کے والد بزرگوار حضرت مولانا منت اللہ رحمانی آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکڑی کے عہدۂ عالیہ پر فائز تھے۔ یہ مولانا ولی رحمانی کی خوش قسمتی کہہ لیجئے کہ بعد ازاں انہیں بورڈ میں آگے چل کر یہی عہدہ مل گیا اور موصوف آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے ہوئے اس دارِ فانی سے عالم برزخ کی جانب منتقل ہو گئے۔
مولانا ولی رحمانی کو اولاً سیاست داں کے طور پر شمار میں لایا جائے یا ایک روشن خیال عالم دین کے طور پر ان کی شخصیت کو سمجھا جائے، یہ فیصلہ کرنا میرے لئے مشکل ہے۔ اس وجہ سے نہیں کہ میں موصوف کو نہیں جانتا، بلکہ اس بناء پر کہ میں نے ان کی شخصیت کو نہایت قریب سے دیکھنے، سمجھنے اور جاننے کی کوشش کی۔ 1995 سے 2000 تک مونگیر کے زمانہ قیام کے دوران مولانا ولی رحمانی سے جو نزدیکیاں رہیں اور جس انداز میں انہیں سیاست، سماجیات، صحت عامہ، خدمت خلق، سلوک و ارشاد اور تعلیم و تدریس کے حوالے سے نہایت سرگرم پایا، اس کے اجمالیہ کے طور پر یہ بات نہایت ذمہ داری کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ موصوف کو ’ہر فن مولا شخصیت ‘کے طور پر شمار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
مولانا ولی رحمانی کی خدمات کا دائرہ نہایت وسیع ہے۔ انہوں نے سیاست کی وادی میں نہ صرف یہ کہ قدم رکھا بلکہ 1974 سے 1996 تک انہوں نے بہار قانون ساز کونسل میں بہ حیثیت رکن اپنی خدمات انجام دیں۔ میری معلومات کے مطابق دو بار انہیں قانون ساز کونسل کی قیادت کا بھی شرف حاصل ہوا۔ والد بزرگوارمولانا منت اللہ رحمانی کی رحلت کے بعد انہیں ورثہ میں خانقاہ رحمانی کی سجادہ نشینی مل گئی، جس کے بعد سیاست سے معرفت کی جانب انہوں نے باضابطہ مراجعت چاہی۔ یوں بہ حیثیت سجادہ نشیں خانقاہِ رحمانی کی سرپرستی کا فریضہ تو انجام دیا ہی، ساتھ ہی ساتھ جامعہ رحمانی مونگیر کی عملاً سربراہی بھی فرماتے رہے۔
خانقاہ رحمانی کے سجادہ نشیں بن جانے کے بعد مولانا ولی رحمانی نے یوں تو باضابطہ سیاست سے توبہ کرلی، لیکن ماضی قریب تک بے ضابطہ ہی سہی سیاست سے ان کا تعلق قائم رہا۔ اس درمیان ملی سرگرمیوں سے راہ و رسم بڑھتا چلا گیا اور یہی وجہ رہی کہ ایک مرحلہ وہ بھی آیا جب مولانا آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت کے ایک دھڑے کے نائب صدر کی حیثیت سے بھی سرگرم رہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ مولانا موصوف کی قابلیت کا اعتراف ہرکسی نے کیا۔ یہی وجہ رہی کہ ایک طرف انہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سکریٹری کے طور پر کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی تو دوسری جانب امارت شرعیہ نے انہیں اپنا امیر منتخب کیا۔ مذکورہ دونوں اداروں کی کلیدی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے باوجود موصوف تعلیمی و رفاہی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر نہ صرف یہ کہ حصہ لیتے رہے، بلکہ ملت اسلامیہ کی نئی نسل کو جدید تعلیم سے جوڑنے کے لئے بھی عملاً مصروف رہے، جس کا نمونہ ہے ’رحمانی فاؤنڈیشن‘ کا قیام اور جس کا ثبوت ہے ’رحمانی 30‘ کے ذریعہ طلبہ کے ذہن کو تراشا جانا، جو تعلیمی طور پر پسماندہ طبقہ کی زندگی میں انقلابی تبدیلی لانے کا ذریعہ ثابت ہو رہا ہے۔
ولی رحمانی ماضی میں مولانا آزاد ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے نائب صدر بھی رہے۔ علاوہ ازیں مرکزی وقف کونسل، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کورٹ، قائمہ کمیٹی برائے اقلیتی تعلیم جیسے سرکاری اداروں کی رکنیت سے بھی نوازے جاتے رہے۔ انہوں نے حکومت ہند کی مدرسہ ماڈرنائزیشن کمیٹی کے چیئرمین کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔ صحافت سے بھی ان کاماضی میں سروکار رہا۔ انہوں نے بہار میں ایک اردو روزنامہ ’ایثار‘ بھی شروع کیا تھا جو اپنے دور کے کامیاب روزناموں کے طور پر مشہور ہوا۔
موصوف نے پچھلی تین دہائیوں کے درمیان نہایت سرگرم زندگی گزاری۔ خاص طور سے اقلیتی معاملات کے تئیں سنجیدگی کے کئی ایسے مظاہرہ کیے، جس کا یہ خاکسار خود بھی گواہ ہے۔ یہ موقع اس کا نہیں کہ اس کی تفصیل بیان کی جائے۔ البتہ یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ بعض بشری کمزوریوں کے باوجود انہوں نے ملت اسلامیہ کے لئے کئی ایسے کارنامے انجام دیئے، جنہیں مثالی کہا جاسکتا ہے۔ خاص طور سے رحمانی 30 نامی ادارہ کا قیام ان کی اختراعی ذہنیت کا جیتا جاگتا نمونہ ہے۔
مولانا ولی رحمانی کی شخصیت کا خاصہ یہ بھی تھا کہ انہوں نے سیاسی حلقوں میں مضبوط گرفت بنا رکھی تھی۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے تقریباً تمام سیاسی جماعتوں سے اپنے تعلقات استوار کیے ہوئے تھے۔ کانگریس سے تو خیر سے ان کی برسوں کی وابستگی رہی ہی تھی، دوسری جماعتوں کے قائدین حتی کہ اٹل بہاری واجپئی کے زمانہ کے بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں سے بھی ان کے خوشگوار مراسم تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ بہار کی موجودہ سیاسی قیادت سے مولانا کے تعلقات کبھی نرم تو کبھی گرم دیکھے گئے۔
شریعت کے تحفظ کا معاملہ ہو یا پھر مدارس اسلامیہ کی بدنامی کے خلاف چلائی جانے والی مہم اور ’ناموس مدارس اسلامیہ کانفرنس کا انعقاد وغیرہ، مولانا ولی رحمانی کی سرگرمیوں کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ جانکار یہ بھی کہتے ہیں کہ مولانا کی سربراہی میں بطور خاص بہار میں تعلیمی ماحول کو سازگار بنانے کی لگاتار کوشش ہوتی رہی اور اس درمیان ان کی سربراہی میں 202 رحمانی مکتب اور خواتین تعلیم مراکز قائم کیے گئے۔ انہوں نے درجن بھر علمی کتابیں بھی لکھیں، جبکہ کئی درجن کتابچے اور تین سو سے زیادہ مضامین بھی ان کی علمی حیثیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ تحریریں مختلف موضوعات کااحاطہ کرتی ہیں۔
مولانا کی خدمات کا کئی گوشوں سے اعتراف بھی کیا گیا، یوں موصوف کئی ایوارڈز سے نوازے بھی گئے۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ کولمبو یونیورسٹی کی ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری بھی انہیں ملی، بہترین کارکردگی کے لئے راجیو گاندھی ایوارڈ سے بھی نوازے گئے، شکشا رتن بھی انہیں دیا گیا ساتھ ہی ساتھ ایک امریکی ادارہ نے انہیں’سر سید ایوارڈ ‘ کا مستحق بھی سمجھا۔ کہاجاسکتا ہے کہ مولانا ولی رحمانی کی رحلت کی شکل میں ملت اسلامیہ نے ایک ایسے قائد کو کھو دیا،جس کا نعم البدل بظاہر دکھائی نہیں دیتا۔
مولانا رحمانی کا میں کبھی معتقد رہا نہیں، جس کی وجہ سے ان کی خدمات پر ’ناقدانہ نگاہ‘ ڈالتے ہی موصوف کے تیور چڑھ جاتے اور بعض اوقات انہیں غصہ بھی آجاتا، اس کے باوجود متوازن انداز میں انہوں نے ایک خاص تعلق قائم رکھا۔ اس تعلق کو کون سا نام دیا جائے، یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ بسا اوقات مولانا ملاقات کی خواہش ظاہر کرتے، ملنے پر مخصوص معاملوں میں مشورہ چاہتے اور مرضی کے خلاف باتیں سن کر رنجیدہ ہوجاتے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ یہ ناگواری تعلقات ختم کرنے کا سبب بن گئی ہو۔
یہ بھی پڑھیں : مدھیہ پردیش میں درجن بھر سے زائد شہروں میں لاک ڈاؤن
مونگیر سے رانچی اور پھر دہلی منتقلی کے باوجود یہ تعلق قائم رہا لیکن جب خاکسار کو یہ محسوس ہوا کہ مولانا کے حلقہ میں مفاد پرست عناصرکا غلبہ ہوتا جا رہا ہے تو دوری اختیار کرنا مجبوری بن گئی۔ یوں بادل ناخواستہ ایک روشن خیال عالم دین سے برسوں کی نزدیکیاں دھیرے دھیرے دوری میں بدلتی چلی گئی۔ آخری باالمشافہ ملاقات 15اگست2017 کو دہلی میں ہوئی۔ یہ ملاقات درحقیقت ایک امریکی یونیورسٹی کے’لیڈر شپ ڈیولپمنٹ پروگرام‘ کوبعض ہندوستانی یونیورسٹی میں بھی متعارف کرانے کی کوششوں کے حوالے سے ہوئی تھی۔ اللہ پاک مولانا ولی رحمانی کی خدمات کو قبول فرمائے، ان کی لغزشوں کو معاف کرے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔