بی جے پی کے لیے آئین نہیں، ’ووٹ بینک‘ اہم!

دستور ہند نے ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو یکساں حقوق دیئے ہیں لیکن امت شاہ کے شہریت ترمیمی بل اور این آر سی نے مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کرد یا ہے

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

نواب علی اختر

ہندوستان میں مبینہ طور پر بڑھتی آبادی کو لے کر گھڑیالی آنسو بہانے والی بی جے پی حکومت نے پاکستان ،بنگلہ دیش اور افغانستان سے آنے والے مہاجرین کو ہندوستان کی شہریت دینے کا تہیہ کر رکھا ہے اوراس کوعملی جامہ پہنانے کی کوششیں تیزکرتے ہوئے شہریت ترمیمی بل(سی اے بی) 2019کو لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا سے بھی پاس کرالیا ہے۔ حالانکہ نریندر مودی کی قیادت والی مرکز کی بی جے پی حکومت کے منصوبے کو ا بھی کامیاب نہیں کہا جاسکتا کیونکہ متعدد سیاسی اورسماجی تنظیموں کی جانب سے پارلیمنٹ کے ذریعہ پاس کئے گئے بل کوعدالت میں چیلنج دینے کی بات کہی جا رہی ہے اس لئے مستقبل میں بی جے پی کے سخت آزمائش میں مبتلا ہونے کا قومی امکان ہے۔

شہریت ترمیمی بل کی منظوری کے ساتھ ہی افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے غیرمسلم تارکین وطن کو ہندوستانی شہریت دینے کیلئے تیار کئے گئے قانون کی تکمیل ہوئی ہے۔ بل پر 6 گھنٹے سے زائد ہوئی بحث کا جواب دیتے ہوئے وزیرداخلہ امیت شاہ نے کہا کہ اس بل کے ذریعہ مذکورہ تین ممالک میں رہنے والے اقلیتوں کو شہریت فراہم کی جارہی ہے۔انہوں نے اپوزیشن کے الزامات کو مسترد کردیا کہ یہ بل مسلمانوں کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کو اس بل سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ بل کو راجیہ سبھا میں 125 ارکان کی تائید حاصل رہی جبکہ اس کے خلاف 105 ارکان نے ووٹ ڈالے۔ اب اس بل کی منظوری کے لیے صدرجمہوریہ سے رجوع کیا جائے گا۔


ایوان میں اپوزیشن کی جانب سے سب سے زیادہ سوالات مسلمانوں کے تعلق سے اٹھائے گئے اور کہا گیا کہ اس بل کو لانے کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہے حالانکہ اس دوران حکمراں طبقہ کی جانب سے اپوزیشن کی آوازکو مکمل طور پر دبانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ حد توتب ہوگئی جب جمہوری ملک میں بحث ومباحثے کی آئینی آزادی کو سلب کرنے کی کوشش کرتے ہوئے حکمرانوں نے شہریت بل کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو پاکستان کی آوازبتا دیا۔امت شاہ نے اپوزیشن پر الزام عائد کیا کہ وہ شہریت ترمیمی بل کے خلاف پاکستان کی زبان میں بات کر رہے ہیں جس طرح پاکستانی قائدین شہریت بل کے ساتھ ساتھ کشمیر میں آرٹیکل 370 کی برخاستگی پر احتجاج کررہے ہیں اسی انداز میں ہندوستان کی اپوزیشن پارٹیاں آواز اٹھا رہی ہیں۔

اقلیتوں کو خوف زدہ کر کے مودی حکومت خواہ اکثریتی طبقہ کوخوش کرکے اپنا ووٹ بینک بڑھانا چاہتی ہو مگراتنا ضرور ہے کہ شہریت ترمیمی بل سے ہندوستان کے تاریخی سیکولر کردار کو ٹھیس پہنچی ہے۔ ہندوستان ایک سیکولر ملک ہے لیکن اس بل سے سیکولر کردار متاثر ہو گا۔ قانون کے مطابق پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے اقلیتی ہندو، سکھ، بدھسٹ، جین، پارسی اور عیسائی طبقات کے افراد کو مذہبی حدود پر زیادتیوں کا سامنا کرنے پر انہیں ہندوستانی شہریت دی جائے گی مگراس بل میں میانمار کے اقلیتی روہنگیا مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ راجیہ سبھا میں امت شاہ صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ میانمار سے ہندوستان آنے والے روہنگیا مسلمانوں کو قطعاً برداشت نہیں کیا جائے گا۔


ہندوستان ایک تاریخی اور روادار ملک ہے جہاں سیکولرازم پر یقین کیا جاتا ہے۔ اس بل سے ہندوستان کی تاریخی بنیادیں کمزور پڑ جائیں گی مگرموجودہ حکومت کے طرزعمل سے ظاہرہورہا ہے کہ بی جے پی کے لیے ووٹ بینک ہی سب کچھ ہے،اس کو ملک کے آئین اورقانون سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہندوستان کی قیمتی تاریخ سیکولرازم کی بنیاد پر ہے اور دستور ہند میں مذہب اور عقائد سے بالاتر ہوکر قانون کے مطابق تمام شہریوں کو یکساں حقوق دیئے گئے ہیں۔ مرکز کی مودی حکومت نے پارلیمنٹ میں اکثریت کا فائدہ اٹھا کر قانون کی دہائی دیتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف اپنے دیرینہ منصوبوں کو روبہ عمل لانے کا سلسلہ تیز کردیا ہے۔ دستور ہند نے ہندوستان میں رہنے والے تمام مذاہب کے پیروکاروں کو یکساں حقوق دیئے ہیں لیکن امیت شاہ کے شہریت ترمیمی بل اور این آر سی نے مسلمانوں کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔

امریکی ادارہ کو اس بات کا اندیشہ ہے کہ حکومت ہند نے اپنے شہریوں کو مذہبی آزمائش میں مبتلا کرنے کی کوشش شروع کی ہے۔ لاکھوں مسلمانوں سے ان کی شہریت چھین لی جائے گی ،انہیں غیر ہندوستانی یا غیر قانونی تارکین قرار دے کر ہراساں و پریشان کیا جائے گا ، اس سے ہندوستان میں سخت انسانی بحران پیدا ہوسکتا ہے اور مسلمانوں کو ان کی ہی سر زمین پر بے سرو سامان کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ آگے چل کر اس طرح کے بلوں کے بھیانک نتائج بر آمد ہوں گے۔ سرکاری سطح پر جب مسلمانوں کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں رکھا جائے گا تو مسلمان اس ملک میں پناہ گزین کہلا ئیں گے اور انہیں غیر قانونی قرار دے کر ملک بدر کرنے کی تیاری کی جائے گی۔


پارلیمنٹ میں پیش کردہ بلوں کو منظور کرنے والے قائدین اپنے ملک کے حق میں درست فیصلہ نہیں کر رہے ہیں۔ انہیں منتخب کرنے والے عوام کو بھی ان بلوں کی سنگینی کا اندازہ نہیں ہے۔ بظاہر یہ پہلی شہریت ترمیمی یا سٹیزن رجسٹریشن بل حکومت کی معمول کی کارروائی ہے لیکن اس کے پیچھے موجودہ حکومت کی جو نیت پوشیدہ ہے وہ خطرناک ہے۔ ہندوستان کو بدامنی کی آگ میں جھونکنے اور امن وامان کو خطرے میں ڈالنے والے اقدامات کی شدید مخالفت کی جانی چاہیے ۔ عوامی سطح پر بل کے خلاف اب تک کوئی شدید مظاہرہ نہ ہونا بھی اس ملک کے شہریوں کی لاشعوری کو ظاہر کرتا ہے یا شہریوں نے نیند کی گولیاں کھالی ہیں۔

اس بل کے خلاف شمال مشرقی ہندوستان میں احتجاج ہورہا ہے ، وہاں کے شہریوں نے بل کو خطرناک سمجھ لیا ہے۔ اگر یہ قانون سختی سے نافذ کیا جائے گا تو پھر یوں سمجھئے کہ مسلم دشمن عناصر اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہونے کی کوشش کریں گے۔ کسی بھی ملک میں مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے کا عمل کئی مسائل پیدا کرتا ہے اور ہندوستان جیسے سیکولر ملک کے لئے اس طرح کے بلوں کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے اور یہ بل ہندوستان کے سیکولر تانے بانے کے مغائر ہے۔ مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک شروع کیا جائے گا تو پھر ہندوستان میں رہنے والے وہ شہری بھی جنہوں نے شہریت بل لانے میں حکومت کی مدد کی ،خود بھی خسارہ سے دوچار ہوجائیں گے۔ حکومت کو عوام کی یہ اندھی تائید بھیانک نتائج برآمد کرے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 12 Dec 2019, 6:30 PM