’وائس آف ڈیموکریسی‘ کی رپورٹ نے لوک سبھا انتخاب کے نتائج پر سوال کھڑا کیا، کانگریس نے الیکشن کمیشن سے مانگا جواب

کانگریس کا کہنا ہے کہ اس رپورٹ میں الیکشن ریزلٹ کا کئی طرح سے تجزیہ کیا گیا ہے، اس میں دکھایا گیا ہے کہ کون کتنے فرق سے جیتا اور کہاں کتنا ووٹ فیصد بڑھا، الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں جواب دینا چاہیے۔

کانگریس لیڈر سندیپ دیکشت
کانگریس لیڈر سندیپ دیکشت
user

قومی آواز بیورو

کانگریس نے ایک بار پھر لوک سبھا انتخاب 2024 کے ووٹ فیصد اور نتائج کو لے کر الیکشن کمیشن سے سوال کیا ہے۔ اپوزیشن پارٹی نے یہ معاملہ ’وائس آف ڈیموکریسی‘ کی ایک تازہ رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے اٹھایا ہے اور الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس رپورٹ سے پیدا سوالات کے جواب دے۔

اس معاملے میں کانگریس کے سینئر لیڈر سندیپ دیکشت نے ایک پریس کانفرنس کیا جس میں بتایا کہ ’’وائس آف ڈیموکریسی نام کے ادارہ نے حال ہی میں ہوئے لوک سبھا انتخابی نتائج پر ایک تجزیہ کیا ہے۔ تجزیہ کے مطابق شروعاتی مرحلہ میں اعلان کردہ (ووٹنگ فیصد کے) اعداد و شمار اور آخری مرحلہ میں حتمی اعداد و شمار میں فرق ہے۔ قومی سطح پر بتائے گئے اعداد و شمار اور آخری اعداد و شمار میں اگر 6 فیصد کا فرق ہے تو کیا یہ (انتخابی) نتائج درست تھے۔‘‘


سندیپ دیکشت کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن نے ہر مرحلہ سے کئی دن بعد ووٹنگ کا حتمی فیصد جاری کیا۔ ایسا تب ہوا جب کہا جاتا ہے کہ ای وی ایم سے بہتر کچھ بھی نہیں ہے، ای وی ایم سے سبھی چیزیں پتہ چل جاتی ہیں، کچھ بھی راز نہیں رہتا۔ کانگریس لیڈر نے کہا کہ ’’ای وی ایم سے جب ووٹنگ شروع ہوتی ہے تو ہر دو گھنٹے میں الیکشن کمیشن کو اعداد و شمار بھیجنے ہوتے ہیں کہ بوتھ پر کتنی ووٹنگ ہوئی ہے۔ اگر ہم ریاستوں کی سطح پر دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ حیرت انگیز طریقے سے آندھرا پردیش اور اڈیشہ میں پہلے جاری کیے گئے نمبر اور حتمی طور پر جاری کیے گئے نمبر میں 12.5 فیصد ووٹوں کا فرق ہو جاتا ہے۔ اتفاق یہ ہے کہ اڈیشہ اور آندھرا پردیش میں بی جے پی اور اس کے اتحادیوں نے انتخاب میں اچھا کیا۔‘‘ ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ای وی ایم کے زمانے میں اعداد و شمار میں ایسا فرق پورے انتخابی عمل پر سوال کھڑے کرتا ہے۔

پریس کانفرنس کے دوران الیکشن کمیشن پر سوالیہ نشان لگاتے ہوئے سندیپ دیکشت نے کہا کہ ’’جب الیکشن کمیشن سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ ہم انٹرنیٹ جیسے مسائل کے سبب پوری جانکاری نہیں دے پاتے تھے۔ لیکن کمیشن نے مزید ایک اعداد و شمار جاری کیا، جس کا جواب ہی ان پر سوال کھڑے کرتا ہے۔ مثلاً الیکشن کمیشن نے کہا کہ 2019 میں بھی ہم کچھ مراحل میں تاخیر سے ڈاٹا دے پائے تھے۔ لیکن اس وقت بھی 7 بجے جاری کردہ ڈاٹا اور فائنل ڈاٹا میں ایک فیصد سے بھی کم کا فرق تھا۔‘‘ کانگریس لیڈر یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہے، لیکن اگر آئینی ادارہ کی کارکردگی جمہوریت پر براہ راست اثر انداز ہے تو انھیں اپنی بات رکھنی چاہیے۔‘‘


’وائس آف ڈیموکریسی‘ کی رپورٹ کا تذکرہ کرتے ہوئے سندیپ دیکشت نے کہا کہ ’’اس رپورٹ میں کئی طریقے سے تجزیہ کیا گیا ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ کون کتنے فرق سے جیتا ہے اور کہاں کتنا ووٹ فیصد بڑھا ہے۔ الیکشن کمیشن سے ہمارا یہ کہنا ہے کہ وہ اس رپورٹ پر جواب دیں، کیونکہ ان پر سوال کھڑے ہو رہے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن اس رپورٹ پر اطمینان بخش جواب نہیں دیتا ہے تو یہ سنگین سوال پیدا کرے گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔