کھرگون: پہلے تشدد کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی، پھر متعصب طریقہ سے بلڈوزر چلا کر مکانات مسمار کئے گئے!
جن کے مکان-دکان مسمار کئے گئے ہیں، ان میں سے کئی لوگوں کو پہلے ہی نوٹس دئے گئے تھے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس موقع پر کارروائی کر کے حکومت سستی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے
پردھان منتری آواس یوجنا کا اصول ہے کہ کسی بھی شخص کو مکان تعمیر کرنے کے لئے تین قسطوں میں 2.50 لاکھ روپے کی رقم اسی وقت دی جاتی ہے جب لیکھ پال یہ رپورٹ پیش کر دے کہ اس زمین پر کوئی تنازعہ نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں تمام جانچ پڑتال کے لئے سرویئر (سروے کرنے والے اہلکار) بھی تعینات کئے گئے ہیں۔ ان کی رپورٹ بھی ضروری ہے۔ بعد میں اگر یہ ثابت ہوتا ہے کہ زمین متنازعہ ہے تو سرویئر اور لیکھ پال دونوں پر کارروائی کی جائے گی۔
کھرگون میں 10 اپریل کو پھوٹنے والے فسادات اور پھر بلڈوزر سے مکانات اور دکانوں کو مسمار کرنے کی کارروائی کے تناظر میں بھی اس اصول کو جاننا ضروری ہے۔ ضلعی انتظامیہ نے ان مکانات اور دکانوں کو ’غیر قانونی‘ قرار دیا ہے جن کے خلاف کارروائی کی گئی تھی اور کہا ہے کہ اس کارروائی کا فرقہ وارانہ تشدد سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کارروائی کے تحت حسینہ فخرو اور ان کے 35 سالہ بیٹے امجد خان کا گھر بھی مسمار کیا گیا ہے۔ حسینہ ان 12 افراد میں سے ایک ہیں جن کے گھر خس خس باڑی کے علاقے میں ہونے والی اس کارروائی میں مسمار کیے گئے۔ حسینہ نے یہ گھر حال ہی میں پردھان منتری آواس یوجنا کے تحت بنوایا تھا۔ اگر یہ 'غیر قانونی' تھا، جیسا کہ انتظامیہ کہہ رہی ہے، تو سوال یہ ہے کہ لیکھ پال اور سرویئر پر اب تک کارروائی کیوں نہیں کی گئی؟ اور اگر 'غیر قانونی' ہونے کی وجہ سے کارروائی نہیں کی گئی تو ایسا کیوں کیا گیا، یہ کوئی کیوں نہیں بتا رہا؟
دراصل کھرگون کے پورے واقعے میں کئی خامیاں ہیں۔ سب سے پہلے یہاں تشدد صرف اس لیے ہوا کیونکہ انتظامیہ نے اسے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ جب بی جے پی کے ریاستی نائب صدر شیام مہاجن کی پولیس سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے معاملے پر توتو میں میں ہوئی اور یہ افواہ پھیلی کہ 'پولیس نے رام نومی کے جلوس کو مسلم اکثریتی تالاب چوک علاقے میں روک دیا ہے'، تو انتظامیہ کو اسی وقت متحرک کر دیا جانا چاہیے تھا۔ جب یہ واضح تھا کہ جلوس نکالنے کے معاملے پر ہنگامہ آرائی کا امکان ہے تو پہلے سے چوکسی اختیار کر لینی چاہیے تھی۔ اس راستے کے گڑھے وغیرہ کی مرمت کی گئی تھی اور اس سے پتھر وغیرہ بھی ہٹا دیے گئے تھے، اس لیے یہ واضح ہے کہ انتظامیہ یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ سب کچھ اچانک ہوا۔
تشدد اس جگہ سے شروع ہوا جہاں پچھلے کچھ سالوں میں 5-7 مرتبہ ہنگامہ ہو چکا ہے۔ ویسے تو جس طرح سے 'دی کشمیر فائلز' فلم کے پوسٹر، اشتعال انگیز نعرے، تلواریں، ڈنڈے، بھگوا جھنڈوں کا جلوس میں استعمال کیا جا رہا تھا اس نے ماحول گرم کر دیا تھا لیکن انتظامیہ کے کان کھڑے نہیں ہوئے۔ جس تالاب چوک کے علاقے میں تشدد ہوا اس کے ایک جانب پہاڑ سنگھ پورہ میں ایک طبقہ، تو مسجد کے پیچھے دوسرا طبقہ اکثریت میں ہے۔
اگر کسی طرح یہ مان بھی لیا جائے کہ انتظامیہ تشدد کو نہیں روک سکی اور اسے قابو کرنے میں دیر ہو گئی تو اس کے ذمہ دار لوگوں کے خلاف فوری کارروائی ہونی چاہیے تھی لیکن یہ 'بلڈوزر کارروائی' کیوں شروع کی گئی اور وہ بھی اس وقت جب شہر کرفیو کی زد میں تھا؟ دراصل اس کی وجہ ہے۔ کسی بھی قسم کے تشدد کے بعد حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اسے فوری طور پر قابو میں کرے اور متاثرہ فریقوں کو مدد فراہم کرے۔ یہ سب کچھ وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے کتنا کیا، یہ جاننا شاید تحقیقاتی صحافت کا کام ہے۔ یہ اطلاع عام ہے کہ انہوں نے ضلع انتظامیہ سے بلڈوزر سے ’فسادیوں‘ کی املاک کو تباہ کرنے اور ان کی کمر توڑ دینے کو کہا۔ ریاست کے وزیر داخلہ نروتم مشرا، جو امن و امان کے ذمہ دار ہیں، انہوں نے بھی کہا کہ 'جس گھر سے پتھر آئے ہیں، اس گھر کو پتھروں کا ڈھیر بنا دیں گے'۔ بس انتظامیہ کو اپنی غلطی پر پردہ ڈال کر دوسرا بیانیہ بنانے کا موقع مل گیا۔
جب کرفیو مکمل طور پر نہیں اٹھایا گیا تو واقعے کے دو دن کے اندر انتظامیہ نے 32 دکانیں، کھانے پینے کے مقامات اور 16 مکانات مسمار کر دیے۔ انہیں 'غیر قانونی' ہونے کا نوٹس دیا گیا تھا۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جن لوگوں کے گھر اور دکانیں مسمار کی گئیں ان میں سے بہت سے لوگوں کو نوٹس دیے گئے تھے اور ایسا لگتا ہے کہ موقع پر کارروائی کرکے حکومت نے سستی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ جبکہ متعدد معاملات میں وہاں رہنے والے لوگوں کو پہلے نوٹس بھی نہیں دیا گیا تھا۔ مسجد کمیٹی کے سربراہ ہدایت اللہ منصوری کی بھی اس علاقے میں ایک دکان ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’’چھ ماہ قبل میونسپل کارپوریشن نے زمین کی پیمائش کروائی لیکن کوئی نوٹس نہیں دیا۔ تشدد کے واقعے کے ایک دن بعد مسجد سے منسلک آٹھ سے زائد دکانوں کو منہدم کر دیا گیا۔ جبکہ اس وقت تک کرفیو نافذ تھا۔
جن دکانوں کو منہدم کیا گیا ان میں ایک نریندر سریش چند گپتا کی بھی تھی۔ انہوں نے یہ جگہ کرائے پر لی تھی اور تقریباً دو دہائیوں سے یہاں کاروبار کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا "نا تو کوئی نوٹس دیا گیا اور نہ کوئی زبانی اطلاع اور ہماری دکانیں مسمار کر دی گئیں۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنا سامان دکان سے نکالا لیکن بہت سے ساتھی خریدار اتنے خوش قسمت نہیں تھے۔‘‘
سماجی کارکن الطاف آزاد اس ساری کارروائی میں امتیازی سلوک برتنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’’اس ملک میں کوئی قانون ہے یا نہیں یا حکومت سب کچھ اپنی مرضی سے کرنا چاہتی ہے؟ دو دن میں جتنے گھر اور دکانیں گرائی گئیں ان سب کا تعلق مسلمانوں سے ہے۔ 121 افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں سے صرف 6 افراد ایسے ہیں جو غیر مسلم ہیں۔ جو 35 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں ان میں سے صرف 7 مسلمانوں نے درج کرائی ہیں۔‘‘
شیوراج نہ صرف بلڈوزر کے استعمال کے معاملے میں یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے نقش قدم پر چل رہے ہیں بلکہ اس تشدد کے سلسلے میں انہوں نے جو دعویٰ ٹریبونل تشکیل دیا ہے اس پر بھی 'مہاراج جی' کی چھاپ ہے۔ یہ ٹربیونل پبلک اینڈ پرائیویٹ پراپرٹی ریکوری ایکٹ 2021 کی دفعات کے تحت تشکیل دیا گیا ہے۔ یہ یوپی میں نافذ قانون کی نقل ہے۔ اسے نروتم مشرا نے دسمبر 2021 میں مدھیہ پردیش قانون ساز اسمبلی میں متعارف کرایا تھا اور اس کے دو منٹ کے اندر منظور ہونے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔
ویسے، رام نومی کے دن مختلف مقامات پر جو تشدد ہوا (یا ہونے دیا گیا) کے تناظر میں یوگی آدتیہ ناتھ کا یہ بیان بھی قابل غور ہے کہ 'تشدد ہر جگہ ہوا لیکن یوپی میں کہیں بھی کچھ نہیں ہوا۔ غالباً وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ ان کی طرح کام کریں، تب ہی 'کامیابی' حاصل ہوگی!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔