تریپورہ تشدد: لینن کا مجسمہ منہدم کیے جانے کو گورنر نے درست ٹھہرایا
تریپورہ میں بی جے پی کے برسراقتدار ہونے سے قبل شروع ہوئے تشدد اور لینن کے مجسمہ کو گرائے جانے کا معاملہ موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
تریپورہ میں بی جے پی کی فتح کے بعد شروع ہوئے تشدد کے واقعات میں روس کی انقلابی شخصیت ولادیمیر لینن کے مجسمے کو گرائے جانے کو گورنر تتھاگت رائے نے جائز ٹھہرایا ہے۔ بی جے پی کارکنان کے ذریعہ سی پی ایم کے لوگوں اور دفتر کو نشانہ بنائے جانے کو درست ٹھہراتے ہوئے تتھاگت رائے نے ٹوئٹ کیا کہ ’’جمہوری طور پر منتخب ایک حکومت اگر کچھ کر سکتی ہے تو جمہوری طور پر منتخب ایک دوسری حکومت اسے ٹھیک کر سکتی ہے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ تریپورہ کے گورنر تتھاگت رائے پہلے بھی اس طرح کے متنازعہ بیانات دیتے رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ مغربی بنگال میں 2017 میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد پر بھی متنازعہ ٹوئٹ کر کے سرخی میں جگہ پا چکے ہیں۔
تریپورہ میں پولس انتظامیہ، بی جے پی اور سی پی ایم کی جانب سے سبھی سے امن بنائے رکھنے کی اپیل کے باوجود انتخابات کے بعد شروع ہوا تشدد چوتھے دن بھی جاری رہا۔ ایک سی پی ایم لیڈر کے مطابق روسی سماجوادی انقلاب کے قائد ولادیمیر لینن کی 11.5 فیٹ اونچی فائبر کی مورتی کو 5 مارچ کی شام کو بی جے پی کارکنان نے بلڈوزر سے گرا دیا۔
سی پی ایم لیڈر ہری پدا داس نے اس سلسلے میں کہا کہ ’’بی جے پی حامی بیلونیا میں سرکاری کالج کے پاس لینن کی مورتی گرانے کے بعد ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعرے لگانے لگے۔‘‘ انھوں نے کہا کہ اس مجسمہ کو اگرتلہ سے 90 کلو میٹر دور جنوبی تریپورہ کے ضلع صدر دفتر بیلونیا میں ایک سال پہلے لگایا گیا تھا۔ داس نے کہا کہ ’’ہمیں ریاست کے مختلف علاقوں سے بی جے پی اور آئی پی ایف ٹی کے اراکین کے ذریعہ سی پی ایم کے اراکین اور حامیوں پر حملہ کرنے اور ان کی ملکیت کو نقصان پہنچانے کی رپورٹ ملی ہے۔‘‘
اس واقعہ کے بعد مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے گورنر اور تریپورہ کے پولس سربراہ اکھل کمار شکلا سے بات کی اور نئی حکومت کی حلف برداری تقریب سے پہلے ریاست میں پھیلے تشدد کو ختم کرنے کے لیے قدم اٹھانے کی ہدایت دی۔ سی پی ایم کے تریپورہ سکریٹری بیجن دھر نے الزام عائد کیا ہے کہ تریپورہ میں ہفتہ کے روز سے ہی 200 الگ الگ مقامات پر بی جے پی-آئی پی ایف ٹی کارکنان کے حملے میں سی پی ایم کے 514 حامی زخمی ہوئے ہیں۔
انتخابات میں بی جے پی کی فتح کے بعد پیدا تشدد اور سی پی ایم حامیوں اور ان کی ملکیت کو نشانہ بنائے جانے کے واقعہ کی چہار جانب سے تنقید ہو رہی ہے۔ تشدد پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے سی پی آئی ممبر پارلیمنٹ ڈی راجہ نے کہا کہ میں اس تشدد کی سخت الفاظ میں تنقید کرتا ہوں۔ ایسے واقعات جمہوریت میں قطعاً قابل قبول نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں کثیرپارٹی جمہوریت ہے، کوئی پارٹی فتح حاصل کرتی ہے تو کسی کو شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہوا کہ وہ تشدد اور توڑ پھوڑ شروع کر دیں۔ قانون کو اپنا کام کرنا چاہیے۔
دوسری طرف بی جے پی کے تریپورہ ریاستی نائب صدر سبل بھومک نے سی پی ایم پر قصداً اُکسانے اور تشدد میں ملوث ہونے اور بی جے پی حامیوں پر حملہ کرنے کا الزام عائد کیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔