محض ویڈیو دیکھنے یا لٹریچر پڑھنے سے کوئی دہشت گرد نہیں بنتا: عدالت

کیرالہ ہائی کورٹ نے این آئی اے کے حکم کو خارج کرتے ہوئے محمد ریاض کو ضمانت دینے کا فیصلہ سنایا اور کہا کہ ویڈیو اور لٹریچر جو پبلک ڈومین میں موجود ہیں، ان کو دیکھنے سے کوئی دہشت گرد نہیں بن جاتا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

کیرالہ ہائی کورٹ نے آج ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے این آئی اے عدالت کے اس حکم کو خارج کر دیا جس میں 26 سالہ محمد ریاض کو ضمانت دینے سے انکار کیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے محمد ریاض کی جانب سے داخل ایک عرضی کی سماعت کے دوران کہا کہ محض کچھ ویڈیو اور تقریر دیکھنا کسی شخص کو دہشت گرد ٹھہرانے کی بنیاد نہیں بن سکتا۔ یہ تبصرہ جسٹس اے ایم شفیق اور پی سوم راجن کی بنچ نے کیا۔

کیس کی سماعت کے دوران قومی ایجنسی این آئی اے نے دلیل دی کہ ریاض کے پاس سے دو لیپ ٹاپ ضبط کیے گئے جس میں جہاد تحریک کے بارے میں لٹریچر، اسلامی مقرر ذاکر نائک کی تقریروں کے ویڈیوز اور سیریا میں جنگ سے متعلق کچھ ویڈیوز ہیں۔ اس پر بنچ نے کہا کہ اس طرح کے ویڈیو پبلک ڈومین میں موجود ہیں اور صرف اس لیے کہ کوئی شخص ان چیزوں کو دیکھتا ہے، اسے دہشت گرد ی سے جرم میں شامل ٹھہرانے کے لیے ناکافی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد ریاض پر دہشت گردی کا الزام اس کی بیوی نے لگایا تھا جو کہ ہندو مذہب سے تعلق رکھتی ہے اور مذہب اسلام اختیار کر چکی تھی۔ محمد ریاض نے اپنی اپیل میں کہا تھا کہ اس سے علیحدگی اختیار کر چکی بیوی کی شکایت پر اسے دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس کی بیوی ایک ہندو خاتون تھی جس نے اسلام قبول کر لیا تھا اور علیحدگی کے بعد اس پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا۔ ریاض کی بیوی نے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کر کے اس پر الزام عائد کیا تھا کہ اسے تبدیلی مذہب اور شادی کے لیے مجبور کیا گیا اور ساتھ ہی اس نے یہ بھی کہا کہ ریاض نے اسے آئی ایس میں شامل ہونے کے لیے سیریا لے جانے کی کوشش کی تھی۔ ریاض کا اس معاملے میں کہنا ہے کہ وہ نہ تو کسی دہشت گرد تنظیم کا حصہ ہے اور نہ ہی ایسی تنظیم سے اس کا کوئی رابطہ ہے۔ اس کی بیوی نے ازدواجی تنازعہ یا کسی کے بہکاوے میں آ کر یہ الزامات لگائے ہیں۔

ہائی کورٹ نے اپنے حکم میں کہا کہ عرضی دہندہ کو اس بنیاد پر حراست میں لیا گیا ہے کہ وہ دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہو سکتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ’’دراصل اس نے کچھ ویڈیو اور تقریریں دیکھی تھیں جو اپنے آپ میں کسی کو دہشت گرد ٹھہرانے کی بنیاد نہیں ہو سکتی جب تک کہ اسے ثابت کرنے کے لیے دیگر چیزیں نہ ہوں۔‘‘ عدالت نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایسے کئی سارے ویڈیوز اور تقریریں پبلک ڈومین میں ہیں۔ ایسی صورت میں محض اس بنیاد پر کسی کو دہشت گرد کیسے ثابت کیا جا سکتا ہے کہ اس نے ویڈیو دیکھے ہیں۔ عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ملزم کے 70 دن جیل میں رہنے کے بعد بھی ایسے کوئی ثبوت سامنے نہیں آئے ہیں جس سے اسے دہشت گرد کہا جا سکے اس لیے اسے ضمانت دی جانی چاہیے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔