مظفر نگر فساد پر ملائم کی مفاہمت، مسلمانوں کو اعتراض

مسلمانوں کا ایک طبقہ اس لئے بھی ناراض ہے کہ ملائم سنگھ یادو 4 سال پہلے ہوئے فساد کے دوران مظفر نگر نہیں آئے اگر وہ مسلمانوں کے حقیقی ہمدرد ہیں تو اتنے دن خبر کیوں نہیں لی!

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

سماجوادی پارٹی کے بانی اور سابق صدر ملائم سنگھ کے اچناک مظفر نگر فساد کے فریقین میں مفاہمت کے لئے سرگرم ہو گئے ہیں۔ انہوں نے اپنی دہلی واقع رہائش پر 27 دسمبر کو ایک میٹنگ بلائی تھی جس کے ذریعہ انہوں نے فساد کے بعد جاٹ اور مسلم طبقہ کے بیچ پیدا ہوئی رنجش کو محبت میں تبدیل کرنے کی اپیل کی۔اس دوران ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی جس کے صدر ملائم سنگھ بنائے گئے تھے۔

اسی سلسلہ میں 31 دسمبر کو مظفر نگر میں ایک میٹنگ منعقد ہوئی جس کے دوران دہلی میں تشکیل دی گئی کمیٹی کی توسیع کی گئی۔مظفر نگر میں منعقد ہوئی میٹنگ میں سابق رکن پارلیمنٹ قادر رانا اور امیر عالم نے بھی شرکت کی۔ غورطلب ہے کہ امیر عالم پر فساد کرانے کا الزام عائد کیا گیا تھا اور وہ جاٹ طبقہ کی نظروں میں ویلن بن گئے تھے۔

جاٹوں اور مسلمانوں کے درمیان پیدا ہوئی کھائی کو بھرنے کے مقصد سے تشکیل دی گئی کمیٹی زمین پر کتنا کام کر پائے گی اور ملائم سنگھ یادو اس میں کہاں تک کامیاب ہو پائیں گے ؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے قومی آواز نے مظفر نگر کے مختلف لوگوں سے بات چیت کر کے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ ان کے ذہن میں اس وقت کیا چل رہا ہے۔

سال 2013 میں جب مظفر نگر میں فساد بھڑکا تھا تو دنیا بھر میں یہ ضلع کافی بدنام ہو تھا ۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے تھے جبکہ 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے (کافی لوگ لاپتہ بھی ہوئے تھے جنہیں بعد میں فوت تصور کر لیا گیا تھا)۔ فساد کے دوران افرا تفری کا ماحول تھا، خوف کی حکمرانی تھی اور قانون سسک رہا تھا۔

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
مظفر نگر کی میٹنگ میں شامل قادر رانا اور امیر عالم

فساد کا ملک گیر اثر ہوا اور عام انتخابات کے بعد مرکزی حکومت تبدیل ہو گئی۔ فساد کے وقت ضلع میں کئی مہاپنچایتیں کی گئی تھیں جن میں شامل تمام بی جے پی رہنما بعد میں الیکشن لڑ کر عزت مآب بن گئے! علاقہ میں موجود مسلم -جاٹ اتحاد ختم ہو گیا اور فضا زہر آلود ہو گئی۔ اشوک بالیان کہتے ہیں ’’نقصان دونوں طرف ہوا اور دونوں ہی فریق برباد ہو گئے۔ مقدمات میں ہزاروں افراد کو نامزد کیا گیا جن میں فرضی نام شامل کیا ۔ویسی یہ بات بھی صحیح ہے کہ تشدد زیادہ تر مسلمانوں کے خلاف ہوا تھا اور ان کے گھر بھی نذر آتش کئے گئے تھے۔ ‘‘

ملائم سنگھ کی طرف سے کی جا رہیں مفاہمت کی کوششوں کو لوگ قابل تحسین تو قرار دے رہے ہیں لیکن ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس میں وہ لوگ ہونے چاہئیں جنہوں نے فساد کے دوران لوگوں کی پریشانیوں کو نزدیک سے دیکھا اور سمجھا ہے۔ اب اچانک سے کوئی شخص مفاہمت کی باتیں کرے اور نیتا بننے کی کوشش کرتے تو ان سے یہ تو پوچھا جائے گا کہ جب آپ کی ضرورت تھی تو آپ آگ لگانے میں تھے یا بجھانے میں!‘‘

راشد علی کھوجی اس معاملہ پر کہتے ہیں ’’ چلئے ٹھیک ہے مسلمان فیصلہ مان لیں گے لیکن کیا ان کو انصاف مل پائے گا! اب تک ان کے خلاف جو ظلم و ستم کیا گیا اس کا کیا ہوگا! کوال میں ہلاک ہوئے شاہنواز کے بھائیوں کو ابھی تک ضمانت بھی نہیں مل سکی ہے جبکہ کچھ لوگ مقدمہ سے بری بھی ہو چکے ہیں۔ ‘‘ راشد مزید کہتے ہیں کہ ’’اب اگر مفاہمت کی بات ہو تو پہلے مجھیڑا ، پور بالیان اور کوال کے مسلمانوں کے خلاف درج ہوئے مقدمات واپس لئے جائیں ۔ ‘‘ راشد کا کہنا ہے کہ دراصل یہ رہنما اپنے آپ کو بچانے کی فراق میں ہیں کیوں کہ جب سے بی جے پی کی حکومت برسراقتدار آئی ہے انتظامیہ میں ان کی پوچھ نہیں ہو رہی اس لئے یہ اپنا نام چمکانے اور خود کو بچانے میں مصروف ہیں۔ ‘‘

مظفر نگر فساد کے دوران کل 639 مقدمات درج کئے گئے تھے اور 2 ہزار جاٹ نوجوانوں کو نامزد کیا گیا تھا۔ شاہ پور کے نزدیک واقع بسی کٹبا کے رہائشی 17 سالہ ندیم کہتے ہیں ’’ فساد کے بعد سے ہم کٹبا میں نہیں رہتے اور جس دن سے میں نے گاؤں چھوڑا اس کے بعد وہاں کبھی نہیں گیا اور نہ کبھی جاؤں گا۔ میرے خاندان کے افراد ہلاک کئے گئے ہیں بھلا ملائم سنگھ کے کہنے سے ہم سمجھوتا کیوں کریں۔‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
مظفر نگر کی میٹنگ

مسلم طبقہ سے وابستہ افراد میں بھی مختلف خیالات پائے جاتے ہیں جیسے بھارتیہ کسان مزدور سنگٹھن کے قومی صدر غلام محمد جولا مفاہمت کے حق میں ہیں ۔ وہ کہتے ہیں ’’جاٹوں اور مسلمانون میں تاریخی بھائی چارگی رہی ہے ۔ بی جے پی کے جو رہنما نامزد ہیں ان سے مقدمے واپس لئے جا رہے ہیں ، عام لوگ ہیں جو پریشان ہونے کے لئے رہ گئے ہیں۔ اس لئے آج وقت کی ضرورت یہ ہے کہ مفاہمت ہو جائے۔‘‘

مقدمات میں مفاہمت کے لئے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے اس کی توسیع میں نریش ٹکیت اور ناحید حسن کا نام بھی شامل کیا گیا ہے۔ نریش ٹکیت اس وقت بھارتیہ کسان یونین کے صدر ہیں اور میٹنگ میں وہ موجود نہیں تھے۔ ناحید حسن اور نریش ٹکیت دونوں ہی اس معاملہ پر کچھ بھی کہنے سے انکار کر رہا ہیں۔

جانسٹھ کے مولانا نذیر کہتے ہیں ’’ مفاہمت کی صورت کیا ہے اور جو بھی شرائط ہیں وہ سب منظر عام پر آنی چاہئیں۔ امن و امان ہونا بہت ضروری ہے لیکن ظالم کو سزا بھی ضرور ملنی چاہئے۔‘‘ مولانا نذیر وہ مذہبی رہنما ہیں جنہیں مظفرنگر فساد کے دوران سماجوادی پارٹی کے وزیر اعلیٰ اکھلیش یادوں نے ہوائی جہاز کے ذریعہ لکھنؤ بلاکر مشورہ کیا گیا تھا۔ کمیٹی میں شامل سابق رکن پارلیمنٹ قادر رانا اور امیر عالم پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔ بڑھانا کے فساد متاثر مستقیم کہتے ہیں ’’ فساد کے دوران یہ دونوں تلاش کرنے پر بھی نہیں ملے تھے۔ جب ہم مصیبت میں تھے تو امیر عالم کے بیٹے نوازش عالم نے اپنا فون بھی بند کر لیا تھا اور اب چودھری بن رہے ہیں۔ جب ہمیں ضرورت تھی تو دڑبے میں گھس گئے تھے۔ ‘‘ مستقیم کا کہنا ہے کہ ’’یہی حال قادر انا کا بھی تھا اس لئے تو وہ بڑھانا اور چرتھاول اسمبلی چناؤ میں بری طرح سے ہارے ہی اور اب میرانپور سیٹ سے نوازش بھی ہار گئے ہیں ۔ ان کے پیروں تلے سے اب زمین کھسک چکی ہے۔ ‘‘

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
دہلی میں ملائم سنگھ یادو کی رہائش پر میٹینگ کا منظر

مستقیم کا کہنا ہے کہ ’’ مفاہمت میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن یہ صرف انہیں کے ساتھ ہو جو غلط نامزد ہوئے ہیں ۔ چاہے کوئی جاٹ ہو یا مسلمان کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونی چاہئے۔‘‘

اس وقت سوال بہت ہیں جن کے جواب معلوم کرنے میں ہر کسی کو دلچسپی ہے ۔ فیصلہ کی صورت کیا ہوگی یہ کسی کو نہیں معلوم۔ مظفر نگر کے فساد متاثرین کافی سمجھانے کے بعد بھی اپنے گاؤوں کو واپس نہیں لوٹنا چاہتے ۔ فساد کے ایک متاثر ہارون کہتے ہیں ’’گاوں میں واپس نہیں جائیں گے، کسی کے کہنے سے نہیں۔ نیتاؤں نے ہمارے لئے کچھ نہیں کیا۔‘‘ شاہپور کے راشد عظیم دہلی اور مظفر نگر دونوں جگہ میٹنگوں میں شامل تھے اور نہیں مفاہمت کمیٹی میں بھی شامل کیا گیا ہے ، ان کا کہنا ہے ’’ فیصلہ سے کسی کی عزت نفس مجروح نہیں ہوگی ، یہ نہایت ضروری ہے اور ایک اچھی پہل بھی ہے۔ ‘‘

دراصل لوگوں میں کئی طرح کی ناراضگی پائی جاتی ہے ۔ فساد کے دوران جمعیۃ علماء ہند نے بھی کام کیا تھا لیکن اس کے ذمہ داران کو میٹنگ کی خبر تک نہیں دی گئی۔ اتنا ہی نہیں مظفر نگر فساد کے دوران مسلمانوں کے نمائندہ کے طور پر ملائم سنگھ کے نزدیک رہنے والے ایم ایل سی آشو ملک بھی اس میٹنگ میں شامل نہیں تھے۔علاوہ ازیں مسلمانوں کا ایک طبقہ اس لئے بھی ناراض ہے کہ ملائم سنگھ یادو 4 سال پہلے ہوئے فساد کے دوران مظفر نگر نہیں آئے اور مظفر نگر کے لوگوں کو دہلی بلا کر مفاہمت کرانے لگے! لوگوں کا کہنا ہے کہ اگر ملائم سنگھ یادو مسلمانوں کو اتنے ہی ہمدرد ہیں تو اتنے دن ان کی خبر کیوں نہیں لی۔ لوئی میں رہ رہے پھوگانا کے فساد متاثر افسر خان کا کہنا ہے ’’ مفاہمت عوام کریں گے رہنما نہیں۔ ان کی سیاست نے ہی تو یہ دن دکھایا ہے، ہم ان کی نہیں مانتے۔ ‘‘ مفاہمت کے لئے کوشش کر رہے ویپن بالیان جاٹوں کے نمائندہ کے بطور میٹنگ میں شامل رہے ہیں ۔ وہ ایک انجان سی تنظیم چلاتے ہیں اور جاٹ طبقہ کے لوگوں تک کو ان پر اعتماد نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Jan 2018, 10:13 PM