وارانسی: پی ایم مودی کے روڈ شو میں جمع بھیڑ ووٹ میں منتقل ہونے والی نہیں

وزیر اعظم نریندر مودی کی نامزدگی کے دوران جمع ہوئی بھیڑ اور کثیر مقدار میں گجرات سے لائے گئے گلاب کے گٹھروں نے کچھ سوال کھڑے کر دیئے ہیں۔ دراصل اس دن لوگوں کو بے شمار نئے چہرے نظر آرہے تھے۔

نریندر مودی : تصویر گیتی
نریندر مودی : تصویر گیتی
user

قومی آواز بیورو

دشاشو میدھ گھاٹ کی سیڑھیوں پر بیٹھے ایک چھوٹے گروپ کی بحث کو درست مان کر چلیں تو لگتا ہے کہ یہاں بیٹھے برج رمن شرما، نویندو پرکاش، جیوتی چوبے، کیشو کیوٹ اور کنہیا سنگھ کی نظر دور تک جا رہی ہے۔ درحقیقت مودی کے روڈ شو کے ذریعہ طاقت کا مظاہرہ کر رہے آر ایس ایس نے دوہرا نشانہ سادھا... ایک تو یہ کہ یہاں لڑائی یکطرفہ بتانے کی کوشش ہوئی، اور دوسری بات یہ کہ اس نے اس بات کو بھی آزمایا کہ وہ کتنی بھیڑ جمع کر سکتا ہے۔

لوگ اس بات کا جواب تلاش کر رہے ہیں کہ سبھی ووٹرس بی جے پی کے کھاتے میں ہیں، تو باقی سیاسی پارٹیوں کے لوگ کہاں گئے۔ دانشور طبقہ کے لوگ بھیڑ جمع ہونے کو سیدھے سیدھے تشدد کے اندیشہ سے جوڑ کر دیکھ رہے ہیں۔ دراصل آر ایس ایس سے منسلک لوگوں کا بھی ماننا ہے کہ گجرات اور بہار ہی نہیں، راجستھان سے بھی لوگ بلائے گئے۔ کئی علاقوں کے آر ایس ایس کارکنان کو لازمی طور پر مودی کے روڈ شو میں شامل ہونے کو کہا گیا تھا۔


وجہ بھی ہے۔ یہ اب عام جانکاری ہے کہ روڈ شو کے دوران مودی پر برسنے والے پھول کی پنکھڑیاں کس طرح ٹرکوں سے بنڈلوں میں ڈھو کر لائی گئی تھیں۔ اب تو اس کی تصویر بھی سوشل میڈیا پر بارش ہو رہی ہے۔ جگہ جگہ وہ لوگ خاص طور سے تعینات کیے گئے تھے جو لوکل نہیں تھے، دوسری ریاستوں سے آئے تھے۔ بی جے پی کے مقامی لیڈر و کارکنان ایک طرح سے حیران ہیں کہ جن کاموں کو وہ برسوں سے کر رہے تھے، پتہ نہیں کن لوگوں نے اسے ہتھیا لیا ہے۔ یہاں رویندر پوری کے بی جے پی دفتر میں تعینات لوگوں کے چہرے پر شکایتی انداز کے ساتھ عدم اطمینان کی لکیریں دیکھی جا سکتی ہیں۔ نام دینے یا بتانے میں گریز کرنے والے ایسے لوگ خود کو بے بس محسوس کر رہے ہیں۔

ان دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں نیوز چینل سے بات چیت کرتے ہوئے ایک بنارسی ضعیف سے جب پوچھا جاتا ہے کہ بنارس کے لیے مودی نے کیا کیا، تو وہ تاؤ سے کہہ رہے ہیں کہ ’’ائیسن ہے، مودی کچھ کئیلن-وئیلن ناہیں۔ خالی جملہ پڑھلن۔ بڑ-بڑ بات کے سوا کچھوو ناہیں۔ ایہے تو حال ہو مودی کے۔‘‘


یہاں کے ایک ٹی وی صحافی اسے دوسرے طریقے سے سمجھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مودی کا روڈ شو کئی چینلوں پر بغیر اشتہار لگاتار تین گھنٹے تک چلا۔ ایسا کبھی نہیں ہوتا۔ ہر دس سیکنڈ کے اشہتار پر بڑے چینلوں کو کم سے کم ایک لاکھ روپے ملتے ہیں۔ آپ سوچ لیجیے، چینلوں پر وقت وقت پر اشتہار روکنے اور روڈ شو کو دکھانے کے لیے کتنے خرچ کیے ہوں گے۔ ویسے چینل ہی بتا سکتے ہیں کہ ان کے لیے کس کس نے کتنے پیسے انھیں دیئے ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ بنارس میں جیت کے لیے برسراقتدار طبقہ اندھا دھند خرچ کر رہا ہے۔ پھر بھی ایس پی-بی ایس پی-آر ایل ڈی اتحاد اور کانگریس کے لیڈر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ بنارس میں مودی کے لیے انتخاب کا راستہ آسان ہے۔ ضلع کانگریس صدر پرجاناتھ شرما کہتے ہیں ’’اب کی ہماری پوری تیاری ہے۔ بہت مضبوطی سے لڑے گی یہاں کانگریس۔‘‘ جوش اور حوصلہ سے لبریز اجے رائے کو کانگریس نے پھر اپنا امیدوار بنایا ہے۔ اتحاد کے ستیش کی رائے میں بھیڑ پر جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ فلسفیانہ انداز میں اپنی بات رکھتے ہیں ’’صاحب بھیڑ کا کوئی رویہ نہیں ہوتا۔ اس کے قدم کس طرف جائیں گے، کوئی نہیں جانتا۔ ہاں، اتحاد کے پختہ ووٹرس ہیں جو کہیں جانے والے نہیں۔ وہ مودی کو تو حمایت کبھی دینے والے نہیں۔ اتحاد سے امیدوار بنائے گئے برخاست بی ایس ایف جوان تیج بہادر کا پرچہ جس طرح رَد کیا گیا، اس سے مودی مخالف ووٹوں کی گول بندی ہونا طے ہے۔‘‘


مخالف گروپ کی باتوں کو وہ لوگ ہوا دے رہے ہیں جنھیں کاشی وشوناتھ کاریڈور تعمیر میں اپنے گھر، اپنی دکانیں گنوانی پڑی ہیں۔ جن لوگوں کو مناسب معاوضہ نہیں مل پایا ہے، ان کا درد بھی مودی کا راستہ روکنے میں مدد کر سکتا ہے۔ وشوناتھ کاریڈور میں منہدم ہوئے مکان مالکوں میں سے کئی ایسے لوگ بھی رہے جو معاشی طور پر بہت کمزور ہیں۔ ان میں کیوٹ اور دلت بھی شامل ہیں۔ الزام ہے کہ معاوضہ کی رقم تقسیم میں بھی تفریق ہوئی۔ ایسے لوگ، آہستہ سے ہی سہی، لیکن یہ ضرور کہتے ہیں کہ اس بار انتخاب میں اپنی مخالفت درج کرنے سے انھیں کون روک لے گا؟

کاریڈور معاملے میں متاثرین کی طرفداری کرنے والے کرشن کمار شرما نے دعویٰ کیا کہ رسوخ دار اور خوشحال لوگوں نے افسران کے ساتھ تال میل کر اپنی زمین، مکان یا پھر دکان کی چوحدی میں جم کر کھیل کیا اور منافع حاصل کیا۔ انھوں نے اپنی زمین کا رقبہ زیادہ بتایا اور زیادہ معاوضہ حاصل کر لیا۔

(ہمانشو اپادھیائے کی رپورٹ)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 May 2019, 10:10 AM