طلاق ثلاثہ: مرکزی حکومت کے مسودے پر یوپی کابینہ کی مہر
طلاق ثلاثہ پر حکومت کا مجوزہ قانو ن خواتین مخالف: انڈین مسلم فار ڈیموکریسی
طلاق ثلاثہ پر قانون سازی کے تعلق سے مرکزی حکومت نے جو مسودہ ریاستوں سے مشورے کے لئے بھیجا ہے اس کو یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی اتر پردیش حکومت نے منظوری دے دی ہے ۔جبکہ دیگر ریاستیں ابھی اس پر غور وخوض میں مصروف ہیں ۔
یوگی حکومت مرکزی حکومت کے مسودے پر صد فیصد متفق ہےجس میں ایک ہی نشست میں تین طلاق دینے پر 3 سال کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ واضح رہے کہ 8 مہینے قبل وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھاتے ہی یوگی آدتیہ ناتھ نے طلاق کے حوالے سے جلد ہی قانون بنانے کی وکالت کی تھی ۔ اب جبکہ سپریم کورٹ نے ایک ہی نشست میں طلاق ثلاثہ پر پابندی عائد کر دی ہے تو یوگی حکومت نے اس پر فیصلہ لینے میں ذرا بھی وقت نہیں لگایا۔
یو پی کابینہ میں بحث کے دورا ن کہا گیا کہ حکومت مسلم خواتین کو برابری کا حق دینے کی حامی ہے اور کسی بھی طرح کی تفریق کو برداشت نہیں کیا جائےگا۔
ادھرطلاق ثلاثہ پر لائے جانے والے قانون کی مسلمانوں کے سبھی طبقات مخالفت کررہے ہیں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے تو اسے ظالمانہ قانون قراردے دیا ہے،اسی سلسلہ میں مسلم فارڈیموکریسی نے بھی اسے خواتین مخالف قانون قراردیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی وجہ سے انہیں فائدہ پہنچنے کے بجائے نقصان پہنچ جائے گا۔
انڈین مسلم فار ڈیموکریسی (آئی ایم ایس ڈی) نے اس تعلق سے مرکزی وزیر برائے قانون روی شنکر پرساد کوایک مکتوب روانہ کیا اور اس کی کاپی قومی انسانی حقوق کمیشن،قومی کمیشن برائے خواتین اور قومی کمیشن برائے اقلیت اور اہم سیاسی پارٹیوں اور متعلقہ تنظیموں کوروانہ کیا ، تاکہ اس میں ترمیم کی جاسکے ،اس کا اعلان تنظیم کے روح رواں جاوید آنند نے کیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سرکار کے مجوزہ قانون کے تحت خواتین کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچے گا کیونکہ یہ خواتین مخالف ہے ،کیونکہ تین طلاق دینے والا تو سزا کے طورپر تین سال کے لیے جیل کی ہوا کھائے گا اور وہ متاثر ہ خاتون بے یارومددگار ہوجائے گی ، جبکہ قصوروار کی جیل میں آسانی سے گزر بسر ہو تی رہے گی،طلاق شدہ خاتون اور اس کے بچوں کی کفالت کیسے ہوگی۔یہ ایک سولیہ نشان ہے؟۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیکمشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 06 Dec 2017, 2:17 PM