اترپردیش شکشا متر بھرتی معاملہ: ریاستی حکومت کو سپریم کورٹ نے جاری کیا نوٹس
اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے کٹ آف بڑھانے کے فیصلے کو صحیح بتایا تھا۔ اس کے علاوہ اس بھرتی عمل کو تین مہینے کے اندر پورا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
نئی دہلی: اترپردیش پرائمری ٹیچر بھرتی معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف شکشامتروں کی اپیل کی سماعت کے دوران پہلے تو سپریم کورٹ نے عرضی خارج کرنے کا زبانی حکم سنا دیا، لیکن چند منٹ بعد ہی پھرسے سماعت کرتے ہوئے ترمیمی حکم کے ساتھ ریاستی حکومت نے نوٹس جاری کیا۔
جسٹس اودے امیش للت، جسٹس ایم ایم شانتن گودر اورجسٹس وینیت سرن کی بنچ نے عرضی گزار ’اترپردیش پرائمری شکشامتر ایسوسی ایشن‘ کی جانب سے پیش سینئر وکیل مکل روہتگی کی دلیلں سننے کے بعد عرضی خارج کرنے کا زبانی حکم سنا دیا، لیکن کچھ قانونی پہلوؤں پر توجہ دلائے جانے کے بعد سماعت پھر سے شروع ہوگئی۔
سینئروکیل دشینت دوے اور اے سدنرم ویڈیا کانفرنسنگ اسکرین پر زبانی حکم جاری ہونے کے بعد دکھائی دیئے اور انہوں نے اپنی دلیلیں شروع کیں۔ اس کے بعد عدالت نے عرضی خارج کرنے کے اپنے زبانی حکم میں ترمیم کی منشا ظاہر کی۔ سماعت پھرسے کچھ دیر بعد شروع ہوئی اور سالیسیٹر جنرل اور دیگر وکیلوں کی دلیلیں سننے کے بعد عدالت نے ریاستی حکومت اور دیگر عرضی گزاروں کو نوٹس جاری کیا اور اس کے جواب کے لئے 14 جولائی تک کا وقت دیا۔ عدالت نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ چھ جولائی تک خالی اسامیوں کا چارٹ عدالت کو سونپ دے۔
سماعت کے شروع میں عرضی گزاروں کی جانب سے روہتگی نے دلیل دی کہ سنگل بنچ نے عرضی گزاروں کے دعوے کی حمایت میں فیصلہ کیا تھا، لیکن بنچ نے شکشا متروں کا موقف پوری طرح نہیں سنا۔انہوں نے کہا کہ شکشا متروں کا مطالبہ ان کے ٹھیکے کے رینیو کے سلسلے میں بھی ہے اور تقرری کے عمل میں مسلسل کی گئی تبدیلی کے سلسلے میں بھی۔ جسٹس للت نے روہتگی سے پوچھا، ’’کتنے انسٹرکٹرس کی تقرری ہوئی تھی؟‘‘
روہتگی نے جواب دیا ،30 ہزار۔ریاستی حکومت نے انسٹرکٹرس کے بجائے 69000 پرائمری ٹیچروں کی نئی بھرتی نکالی۔ امتحان کے بعد نیا کٹ آف بھی طے کیا۔ لیکن ان کی دلیلوں سے غیر مطمئین بنچ نے عرضی خارج کرنے کا زبانی حکم سنایا۔ تھوڑی دیر میں دوے اور سدنرم کے اسکرین پر دکھنے کے بعد حالات پلٹ گئے اور بنچ کو اپنا زبانی حکم فی الحال ٹالتے ہوئے سماعت دوبارہ شروع کرنی پڑی۔
بنچ نے کہا کہ اس معاملے میں اتنے موقف ہیں کہ ان سبھی کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ سننا مشکل ہوگا۔جسٹس للت نے کہا،’ہم معاملے میں کوئی عبوری حکم یا حالات برقرار رکھنے کا حکم جاری نہیں کریں گے۔ایسا حکم جاری کرنے سے پہلے ہمیں مطمئین ہونا ہوگا اور ابھی ہم کسی بھی دلیل سے مطمئین نہیں ہوئے ہیں۔
کچھ شکشا متروں کی جانب سے سینئر وکیل گوپال سبرمنیم نے دلیلیں دینی شروع کیں۔ انہوں نے شکشا متروں کی تعریف اور حکمت عملی بتائی۔ انہوں نے ہائی کورٹ کی سنگل بنچ اورآئینی بنچ کے فیصلوں کی قانونی باریکیاں کورٹ کو بتائیں۔ دوے نے عرضی گزارشکشا متر سنجیو تیواری کی جانب سے دلیل دی۔
انہوں نے اپنے موئکل کے پچھلے ڈیڑھ دہائی سے پڑھانے کا دعوی کیا۔ انہوں نے کہا کہ 69 ہزار ٹیچروں کی بھرتی کے اشتہار میں کٹ آف کا ذکر نہیں تھا۔ اب عدالت نے مہتا سے پوچھا، ’’میرٹ کے نام پردیگر اصول کیوں بدلے؟ انہوں نے کہا کہ وہ کل اس سلسلے میں حکومت سے ہدایت لے کر عدالت کو بتائیں گے۔
اس کے بعد عدالت نے کہا، ’’ہم پھر سبھی عرضی گزاروں پر نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ تقرری کے عمل کے اصول امتحان سے پہلے یا بعد میں بدلنا کتنا صحیح یا غلط ہے۔‘‘اس دوران سینئر وکیل راجیو دھون نے دلیل دی کہ امتحان کے نتیجہ 40 اور 45 فیصدی کے میرٹ کی بنیاد پر ہی پھر سے جوڑے جائیں۔ ایسا کیوں کہ پہلے امتحان کسی اور بنیاد پر اور دوسرے کسی اور بنیاد پر؟ اس پر مہتا نے کہا کہ یہ لوگ باصلاحیت امیدواروں پر کم صلاحیت والوں کو قابض چاہتے ہیں۔
اس کے بعد عدالت نے اترپردیش حکومت اور دیگر کو نوٹس جاری کیے، اور اس کے جواب کے لئے 14 جولائی کی تاریخ مقرر کی۔ ریاستی حکومت یہ بتائے کہ 45 فیصد عام اور ریزرو کوٹے کے لئے 40 فیصد کی بنیاد کو کیوں بدلا گیا؟ ریاستی حکومت چھ جولائی تک چارٹ کے ذریعہ سارے مرحلے اور تفصیل بتائے۔ وکیل گورو یادو کی جانب سے دائر اس عضی میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگانے یا اسے منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس سے پہلے ریاستی حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں ایک کیوئیٹ داخل کی گئی تھی،جس میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ اس کا موقف سنے بغیر الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف دائر عرضی پر کوئی حکم جاری نہ کرے۔اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے اپنا فیصلہ سنایا تھا۔ اس کے بعد ریاست میں بیسک ایجوکیشن کونشل کے اسکولوں میں اسسٹنٹ ٹیچروں کی بھرتی کا راستہ صاف ہوگیا تھا۔ اترپردیش میں ٹیچروں کی بڑے پیمانے پر ہونے والی بھرتی لٹکی ہوئی تھی۔ ایسا کٹ آف مارکس سے متعلق تنازع کی وجہ سے تھا۔ اس معاملے میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کے کٹ آف بڑھانے کے فیصلے کو صحیح بتایا تھا۔ اس کے علاوہ اس بھرتی عمل کو تین مہینے کے اندر پورا کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔