اتر پردیش اسمبلی انتخابات: اقتدار پر کس کا ہوگا قبضہ، یہ طے کرے گا تیسرا مرحلہ!
تیسرا مرحلہ ہی اس بات کو بھی طے کرے گا کہ بی جے پی اور اتحاد میں سے کون یوپی کے اقتدار تک پہنچے گا۔ کانگریس اور بی ایس پی کا یو پی کی سیاست میں کتنا عمل دخل ہوگا۔
مرادآباد: یو پی اسمبلی حلقے کے دو مر حلے گزر چکے ہیں، جس میں بی جے پی اور اتحاد کے امیدواروں کے بیچ مقابلہ آرائی بتائی جا رہی ہے۔ تیسرے مرحلے کی ووٹنگ آئندہ 20 تاریخ کو ہونی ہے۔ 16 اضلاع کی 59 سیٹوں پر ہونے والی ووٹنگ کو لے کر سب کی نظریں اس بات پر لگی ہیں کہ تیسرے مرحلے میں کون سی پارٹی حاوی رہتی ہے۔ سماج وادی پارٹی کا صحیح امتحان بھی تیسرے مرحلے پر ہی منحصر ہے کیونکہ تیسرے مرحلے کی بیشتر سیٹوں پر یادو طبقہ کا خاصہ ووٹ ہے۔
سیاسی حلقوں میں یہ بات زیر بحث ہے کہ پہلے مرحلے میں جاٹ اور مسلم ووٹروں نے اتحاد کا پوری طرح سے ساتھ دیا، دوسرے مرحلے میں مسلم ووٹروں نے سائیکل کے علاوہ کسی اور نشان کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔ اب یادو ووٹر اپنی ذمہ داری نبھاتا ہے کہ نہیں یہ 20 تاریخ کو ہی سامنے آئے گا، کیونکہ گزشتہ اسمبلی انتخابات میں یہ بحث رہی تھی کہ یادو طبقے نے سائیکل کی بجائے کمل کو پسند کیا تھا۔ بی جے پی جہاں اس علاقے میں اپنی کار کردگی برقرار رکھنے کی کوشش کرے گی، وہیں سماج وادی پارٹی کو بھی بہترین نتائج آنے کا انتظار رہے گا۔
اس علاقے میں بی ایس پی اور کانگریس کی نظریں بھی اپنی کارکردگی پر رہیں گی، کیونکہ ان علاقوں میں دلت اور برہمن ووٹوں کی تعداد بھی کافی ہے۔ مسلم ووٹر بھی اس حیثیت میں ہے کہ وہ کسی بھی پارٹی کی جیت کے وزن کو اپنے ووٹ سے کم یا زیادہ کر سکتا ہے۔ جھانسی ضلع میں چار سیٹیں ہیں، للت پور میں صرف دو سیٹیں ہیں، ضلع جالون میں 3 سیٹیں ہیں۔
بندیل کھنڈ کے ان اضلاع میں سبھی پرانے مسائل کم و بیش برقرار ہیں۔ سب سے اہم مسئلہ پینے کے صاف پانی کا ہے جس کے لئے یہاں کے لوگوں کو بہت دور جانا پڑتا ہے۔ دیہی علاقوں میں تو ترقیاتی کاموں کا پوری طرح سے فقدان ہے مگر شہری علاقوں میں بھی ایسی بہت سی جگہیں ہیں جہاں سرکاری ٹینکر کا ہی سہارا صاف پانی کے لئے لینا پڑتا ہے۔ للت پور،جھانسی اور مہوبہ میں یہ مسئلہ بہت پرانا ہے۔ صاف پانی پہنچانے کے لئے ہر گھر میں نل سے جل منصوبہ تو بنایا گیا مگر ابھی تک یہ کام پورا نہیں ہوا۔ ان علاقوں میں روزگار کے مواقع بھی بہت کم ہیں جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو روز گار کے لئے دوسرے شہروں کا رُخ کرنا پڑتا ہے۔
اس علاقے میں آوارہ جانوروں کا بھی بڑا مسئلہ ہے، کھیتوں کی رکھوالی کے لئے کسانوں کو پوری پوری رات کھیتوں کی رکھوالی کرنی پڑتی ہے۔ سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، گلیاں کچی اور گندگی ہر طرف جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کو دشواری کا سامنا رہتا ہے۔ بندیل کھنڈ کا یہ علاقہ بھلے ہی تاریخی حیثیت رکھتا ہو مگر یہاں عوامی فلاح بہبود کے کام نہ ہونا بھی ایک تاریخ ہی بن گئی ہے۔ موجود حکومت سے یہاں کے لوگوں نے بہت امیدیں لگا رکھی تھیں مگر بی جے پی حکومت بھی اس علاقے کا کوئی بھلا نہیں کر پائی ہے۔
بندیل کھنڈ کے لوگوں کو شکایت سبھی پارٹیوں سے ہے جن کی حکومت یہاں رہ چکی ہے۔ للت پور اور محرونی (محفوظ) سیٹ پر بی جے پی قابض ہے جبکہ جھانسی کی ببینہ، جانسی صدر، کہو رانی (محفوظ) اور گریٹھا پر بھی بی جے پی کا ہی قبضہ ہے، جالون کی مادھو گڑھ، کالپی، کورئی (محفوظ) سیٹ پر بھی بی جے پی نے قبضہ کیا ہوا ہے، مگر جس طرح سے یہاں لوگوں میں ناراضگی ہے اور وہ تبدیلی کی بات کر رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ بی جے پی کو اپنا دبدبہ بر قرار رکھنے کے لئے خاصی محنت کرنی پڑیگی۔
یہ بھی پڑھیں : راہل گاندھی نے کی چنّی حکومت کے کام کاج پر ووٹ دینے کی اپیل
سماج وادی پارٹی اتحاد کے لئے بھی یہاں کی سیاسی زمین پر قبضہ کرنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ یہاں بی ایس پی اور کانگریس کا بھی کافی اثر رہا ہے۔ ان سیٹوں پر برہمن، ایس سی، کشواہا، مسلم، ویشیہ اور یادو طبقہ کے ووٹ ہیں۔ بندیل کھنڈ کے اس علاقے میں پسماندہ و اعلیٰ ذات کی بنیاد پر تیسرا مرحلہ ہوتا نظر آ رہا ہے، اگر ایسا ہی ہوا تو پھر اس کا فائدہ سماج وادی اتحاد کو ہو سکتا ہے۔ تیسرا مرحلہ ہی اس بات کو بھی طے کرے گا کہ بی جے پی اور اتحاد میں سے کون یوپی کے اقتدار تک پہنچے گا۔ کانگریس اور بی ایس پی کا یو پی کی سیاست میں کتنا عمل دخل ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔