ندا فاضلی: ’دنیا جسے کہتے ہیں، جادو کا کھلونا ہے‘...برسی پر خصوصی پیشکش
مقتدیٰ حسن ندا فاضلی اردو اور ہندی کے ایسے فنکار تھے جن کی شاعری وقت کے کاغذ پر کچھ اس طرح درج ہے کہ صدیاں بھی اسے دھندلا نہ کر پائیں گی۔
جے پرکاش نارائن
ندا فاضلی 2 اکتوبر 1938 کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ والد شاعر تھے لہذا بڑے بھائی کے قافیہ سے ملا کر ان کا نام رکھا گیا مقتدیٰ حسن۔ ان کا بچپن اور لڑکپن مدھیہ پردیش کے گوالیار میں گزرا اور انہوں نے تعلیم بھی وہیں حاصل کی۔
مقتدیٰ حسن بچپن ہی سے شاعری میں اپنے ہاتھ آزمانے لگے تھے اور ’ندا فاضلی‘ ان کا تخلص ہے۔ ندا کے معنی ہیں آواز اور فاضلی کشمیر کے علاقہ فاضلہ سے آیا ہے جہاں سے ان کے آبا و عزداد دہلی آئے تھے۔ ندا فاضلی کے اردو-ہندی ادب میں مکمل طور آنے کا سبب ایک حادثہ مانا جاتا ہے۔
کہتے ہیں وہ کالج میں تھے تو اپنے سامنے والی سیٹ پر بیٹھنے والی لڑکی سے انہوں نے یکطرفہ، انجانا اور انکہا رشتہ قائم کر لیا تھا۔ وہ آج کل کا دور نہیں تھا جہاں اظہار محبت بغیر شرم و حیا کر دیا جاتا ہے۔ تب تو اتنی بندشیں تھیں کہ احساسات کا اپھان سماجی بندھنوں کی دہلیز کو آسانی سے پار ہی نہیں کر پاتا تھا۔
ایسی ہی کیفیت میں مقتدیٰ حسن کے دل کے آنگن میں ایک بیج پھوٹ کر پودا بن گیا۔ اچانک کالج کے نوٹس بورڈ پر ایک نوٹ چسپاں ہوا جس نے ندا فاضلی پر بم کا سا دھماکہ کر دیا۔ انگریزی میں نوٹس بورڈ پر جو لکھا تھا اس کا اردو ترجمہ کچھ یوں ہے، ’کماری ٹنڈن کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے، جس کی وجہ سے ان کی موت ہو گئی ہے۔‘ اس خبر سے ندا اندر تک لرز گئے اور بہت غمزدہ ہوئے۔ لیکن اپنی تکلیف کے اظہار کے لئے ان کے پاس نہ تو الفاظ تھے اور نہ ہی سلیقہ۔ انہوں نے جو کوچھ محسوس کیا اسے لکھنے کی کوشش کی لیکن اپنے دکھ کو پوری طرح ظاہر کرنے میں ناکام رہے۔
کافی جد و جہد کے بعد ایک بات انہیں سمجھ آئی کہ قصور الفاظ میں نہیں بلکہ لکھنے کے طریقہ میں ہے۔ وہ جو کچھ لکھ رہے ہیں اس میں ایسا کچھ بھی نہیں جو ان کی اندر کی تکلیف کو نمایاں کر سکے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن جب وہ صبح کے وقت مندر کے پاس سے گزر رہے تھے تو کسی کو سورداس کے ایک بھجن گاتے سنا۔
بس پھر کیا تھا؟ مقتدیٰ کو لگا کہ ان کے اندر کی تکلیف ظاہر کرنے کا سب سے بہتر طریقہ یہی ہے۔ اس کے بعد تو ان پر کبیر داس، تلسی داس، سور داس، بابا فرید وغیرہ صوفی دور کے شاعروں کو پڑھنے کا جنون سوار ہو گیا۔ وہ جتنا ان شاعروں کو پڑھتے گئے، اس نتیجہ پر پہنچتے گئے کہ ان شاعروں کی سیدھی سادی بغیر لاگ لپیٹ کی دو ٹوک زبان والی تخلیقات بہت موثر ہیں۔
بس یہیں سے ندا فاضلی ایک عظیم شاعر بننے کی راہ پر قدم بڑھا چکے تھے۔
بانگی دیکھیں:
خدا خاموش ہے! تم آؤ تو تخلیق ہو دنیا
میں اتنے سارے کاموں کو اکیلا کر نہیں سکتا
سادہ زبان ہمیشہ کے لئے ندا فاضلی کا طرز بیاں بن گئی۔ ہندو مسلم قومی فسادات سے تنگ آکر ان کے والدین پاکستان میں جا بسے لیکن ندا ہندوستان سے نہیں گئے۔ روزگار کی تلاش میں وہ کئی شہروں میں بھٹکے لیکن کام کہاں ملتا! شاعری چلتی رہی، دراصل قسمت نے ندا کے لئے کچھ اور ہی لکھا ہوا تھا۔
تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے
جہاں جاؤں یہ لگتا ہے تیری محفل ہے...
ایسی نظموں تک ندا فاضلی یوں ہی نہیں پہنچے۔ بھوپال، الہ آباد، دہلی نہیں بلکہ ممبئی ہندی اور اردو ادب کا گڑھ تھا۔ سال 1964 میں ندا کام کی تلاش میں ممبئی پہنچ گئے۔ دھرم یُگ، بلِٹز، ساریکا جیتی میگزینوں کے لئے انہوں نے مضمون لکھنے شروع کئے، جلد ہی وہ شائع بھی ہونے لگے۔ ان کے آسان زبان والے اور موثر مضامین نے جلد ہی انہیں عزت اور شہرت دلا دی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ ہے۔ یہ ندا ہی کہہ سکتے تھے:
دیوتا ہے کوئی ہم میں نہ فرشتہ کوئی
چھو کے مت دیکھنا، ہر رنگ اتر جاتا ہے
ملنے جلنے کا سلیقہ ہے ضروری ورنہ
آدمی چند ملاقاتوں میں مر جاتا ہے
ندا کی زیر بحث کتابوں میں لفظوں کے پھول، مور ناچ، آنکھ اور خواب کے درمیان، کھویا ہوا سا کچھ، آنکھوں بھر آکاش اور سفر میں دھوپ تو ہوگی، دیواروں کے بیچ، دیواروں کے باہر، ملاقاتیں، تماشہ میرے آگے شامل ہیں۔
انہوں نے کچھ عمدہ شاعروں پر لکھی کتابوں کو ادارت بھی کی جن میں بشیر بدر: نئی غزل کا نام، جانسار اختر: ایک جوان موت، داغ دہلوی: غزل کا ایک اسکول، محمد علی دہلوی: شبدوں کا چترکار، جگر مراد آبادی: محبتوں کا شاعر، کافی مشہور ہوئیں۔
اپنی ادبی خدمات کے لئے وہ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، قومی ایکتا ایوارڈ، مدھیہ پردیش حکومت کے میر تقی میر ایوارڈ، خسروں ایوارڈ، مہاراشٹر اردو اکادمی ایوارڈ، بہار اردو اکادمی ایوارڈ، اتر پردیش اردو اکادمی ایوارڈ، ہندی اردو سنگم جیسے متعدد ایوارڈوں سے نوازے گئے۔ فلمی نغموں کے لئے بھی انہیں کئی مرتبہ ایوارڈوں سے نوازا گیا تھا۔
بطور شاعر اور نغمہ نگار ندا فاضلی کا سفر کتنا شاندار تھا یہ ان کے گیتوں، غزلوں اور شاعری کو سن کر ہی لگایا جا سکتا ہے۔ کہتے ہیں کمال امروہی جب فلم رضیہ سلطان بنا رہے تھے تو گیت لکھنے کی ذمہ داری جانسار اختر پر تھی، اچانک وہ انتقال کر گئے۔ جانسار اختر بھی گوالیار سے ہی تھے اور انہوں نے کمال امروہی سے صد فیصد درست اردو بولنے والے کے طور پر ندا کا ذکر کیا ہوا تھا۔
کمال امروہی نے جان نسار اختر کی بات کی قدر کرتے ہوئے ندا فاضلی سے رابطہ قائم کیا اور انہیں فلم کے بقیہ دو نغمے تخلیق کرنے کو کہا ... اور پھر ندا نے کیا نغمے تخلیق کئے۔ یہ گانے تھے، پہلا-
’تیرا ہجر میرا نصیب ہے
تیرا غم ہی میری حیات ہے
مجھے تیری دوری کا غم ہو کیوں
تو کہیں بھی ہو میرے ساتھ ہے...‘
اور دوسرا گانا تھا
’آئی زنجیر کی جھنکار خدا خیر کرے
دل ہوا کس کا گرفتار خدا خیر کرے
جانے یہ کون میری روح سے چھوکر گزرا
ایک قیامت ہوئی بے دار خدا خیر کرے..‘
اور اس طرح اتنے شاندار نغموں سے ان کے فلمی سفر کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے کئی فلموں کے لئے گیت تخلیق کئے۔ ایسی فلموں میں سرفروش، آہستہ آہستہ، اس رات کی صبح نہیں، سُر وغیرہ شامل ہیں۔ وہ ہندو ہو یا مسلم دونوں طرف کی انتہا پسندی کے سخت مخالف تھے۔
ندا فاضلی کے اس شعر پر تنازعہ بھی کھڑا کیا گیا
گھر سے مسجد ہے بڑی دور چلو یوں کر لیں
کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
ندا فاضلی ایک مشاعرے میں شرکت کے لئے جب پاکستان گئے تو انہیں کچھ انتہاپسندوں نے گھیر لیا اور پوچھا کہ کیا آپ بچے کو اللہ سے بڑا سمجھتے ہیں؟ ندا کا جواب تھا کہ مجھے تو صرف اتنا پتہ ہے کہ مسجد انسان کے ہاتھ بناتے ہیں جبکہ بچے کو اللہ اپنے ہاتھوں سے بناتا ہے۔
اردو ہندی کے اس عظیم شاعر نے 8 فروری 2016 کو اس دنیا کو الوداع کہا۔ کاش ’آدمی کی تلاش‘ عنوان والی ان کی نظم کی شروعات کچھ یوں ہوتی،
ابھی مرا نہیں زندہ ہے آدمی شاید
یہیں کہیں اسے ڈھونڈو، یہیں کہیں ہوگا
کاش اس طرح ڈھونڈنے پر وہ مل جاتے۔
یہ مضمون آج تک پر ہندی میں شائع ہو چکا ہے
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔