آئی اے ایس پوجا کھیڈکر تنازعہ کے درمیان یو پی ایس سی کے چیئرمین منوج سونی عہدے سے مستعفی
منوج سونی کی میعاد کار ختم ہونے میں تقریباً 5 سال باقی تھے اور انہیں 2029 میں اس عہدے سے سبکدوش ہونا تھا لیکن وہ پہلے ہی اپنے عہدہ سے دستبردار ہو گئے
نئی دہلی: یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کے چیئرمین منوج سونی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مدت ملازمت پوری ہونے سے قبل ہی اپنا استعفی صدر کو ارسال کر دیا ہے۔ انہوں نے ایسے وقت میں استعفیٰ دیا ہے جب یو پی ایس سی زیر تربیت آئی اے ایس پوجا کھیڈکر کے حوالہ سے تنازعہ میں گھرا ہوا ہے۔ تاہم منوج سونی نے کہا ہے کہ انہوں نے ذاتی وجوہات کی بنا پر استعفیٰ دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انہوں نے جون کے آخری ہفتے میں استعفیٰ دیا تھا۔ فی الحال ان کا استعفیٰ قبول کیے جانے کے بارے میں باضابطہ معلومات سامنے نہیں آئی ہیں۔
خیال رہے کہ منوج سونی کی میعاد کار ختم ہونے میں تقریباً 5 سال باقی تھے اور انہیں 2029 میں سبکدوش ہونا تھا۔ انہوں نے 2017 میں یو پی ایس سی میں بطور رکن شمولیت اختیار کی تھی۔ 16 مئی 2023 کو انہیں یو پی ایس سی کا چیئرمین مقرر کیا گیا۔ وہ تین بار وائس چانسلر رہے۔ سونی 2005 میں ملک کی سب سے کم عمر یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنے تھے۔
پوجا کھیڈکر کی بات کریں تو مہاراشٹر کیڈر کی زیر تربیت آئی ایس ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے آئی ایس کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے فرضی دستاویزات کا استعمال کیا اور یو پی ایس سی کو غلط معلومات فراہم کیں۔ الزام ہے کہ انہوں نے بصارت سے محروم اور دماغی طور پر بیمار ہونے کا سرٹیفکیٹ پیش کر کے یو پی ایس سی امتحان میں حصہ لیا تھا۔ اسی بنیاد پر وہ خصوصی مراعات حاصل کر کے آئی اے ایس بن گئیں۔ اگر انہیں یہ رعایت نہ ملتی تو حاصل کردہ نمبروں کی بنیاد پر ان کے لیے آئی اے ایس کا عہدہ حاصل کرنا ناممکن تھا۔
یہ بھی پڑھیں : دہلی میں بارش کی پیش گوئی، مرطوب گرمی سے کب ملے گی راحت؟
الزام ہے کہ انتخاب کے بعد پوجا کو طبی معائنہ کرانا تھا لیکن انہوں نے نہیں کرایا۔ انہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر 6 بار طبی معائنے سے انکار کیا۔ بعد میں ایک بیرونی میڈیکل ایجنسی سے ایم آر آئی رپورٹ جمع کرانے کا انتخاب کیا، جسے یو پی ایس سی نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ تاہم بعد میں یو پی ایس سی نے اس رپورٹ کو قبول کر لیا۔ یہی وجہ ہے کہ یو پی ایس سی اس معاملے میں الزامات کی زد میں ہے اور حکومت سے اس معاملہ میں تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔