یو پی: راشن ترسیل میں دھاندلی! چھ لاکھ راشن کارڈوں کو منسوخ کرنے کی تیاری

تکنیکی خامی ریاست میں دھاندلی کی وجہ بن گئی ہے اور تقریباً چھ لاکھ خاندانوں کے راشن کارڈ ایسے ہیں جو دو دو اضلاع میں بنائے گئے ہیں

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز بیورو

لکھنؤ: اترپردیش حکومت راشن کارڈ میں ہونے والی دھاندلیوں پر روک لگانے کی تیاری کر رہی ہے۔ محکمہ غذائی ترسیل کی طرف سے جاری کیے جانے والے لاکھوں راشن کارڈ فرضی پائے گئے ہیں۔ اس دھاندلی کے انکشاف کے بعد اتر پردیش حکومت تقریباً 6 لاکھ راشن کارڈوں کو منسوخ کر سکتی ہے۔ ایک عہدیدار نے بتایا کہ ایک عرصے سے مختلف اضلاع سے دوہرے راشن کارڈ جاری کیے جانے کی شکایات موصول ہو رہی ہیں۔

انہوں نے کہا ، ’’ایک آدھار نمبر کے ذریعہ اگر دیگر ضلع میں دوسرا راشن کارڈ جاری کروایا جائے تو وہ پکڑ میں نہیں آتا ہے لیکن اگر ایک ہی ضلع میں ایک ہی آدھار سے دو راشن کارڈ بنوائے جائیں تو انہیں پکڑنا آسان ہے۔‘‘


یہی تکنیکی خامی ریاست میں دھاندلی کی وجہ بن گئی اور تقریباً چھ لاکھ خاندانوں کے راشن کارڈ ایسے ہیں جو دو اضلاع میں بنائے گئے ہیں۔ محکمہ غذائی ترسیل کے ایک عہدیدار کے مطابق، یہ معاملہ اس وقت منظرعام پر آیا جب حال ہی میں ریاستی سطح پر ’ڈی - ڈپلیکیشن‘ سافٹ ویئر کا استعمال کیا گیا۔ فی الحال اس معاملہ کی رپورٹ حکومت کو بھیج دی گئی ہے۔

راشن کی تقسیم میں تکنیکی نظام کے نفاذ کے باوجود ریاست میں تمام تر خامیاں اور بے ضابطگیاں ظاہر ہوئی ہیں۔ گزشتہ دنوں سدھارتھ نگر کے میٹھاوال بلاک کے چھرہٹہ گاؤں میں پردھان نے الزام لگایا تھا کہ ان کے گاؤں میں 254 راشن کارڈ ہیں، جن میں سے 54 فرضی ہیں۔


پردھان نے کہا، ’’اس کی وجہ سے ان لوگوں کو بھی راشن مل پا رہا ہے جو کمزور طبقے سے نہیں ہیں۔ کئی فوت شدہ افراد کے بھی نام نہیں نکالے گئے ہیں اور ان افراد کے نام پر راشن بھی لیا جارہا ہے۔‘‘ پردھان نے کہا کہ متعلقہ حکام کو بھی کئی بار یہ شکایت کی گئی لیکن اس سلسلے میں کبھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔

ادھر، فوڈ کمشنر منیش چوہان نے آئی اے این ایس کو بتایا، ’’ریاستی سطح پر ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گئی ہے۔ اس میں تقریباً چھ لاکھ راشن کارڈوں میں ڈپلیکیشی پائی گئی ہے۔ ان میں ایک آدھار پر دو دو راشن کارڈ درج ہیں جسے ختم کردیا جائے گا۔ تاہم ، ابھی ضلع سے اعداد و شمار نہیں پہنچے ہیں۔ جلد ہی اسے جاری کردیا جائے گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Nov 2019, 7:11 PM