شیعہ-سنی وقف بورڈ تحلیل کرنے کی تیاری میں یوگی حکومت، بنے گا نیا مُسلم وقف بورڈ!

اتر پردیش حکومت سنی وقف بورڈ اور شیعہ وقف بورڈ کو تحلیل کر ایک نیا وقف بورڈ بنانا چاہتی ہے۔ اس بورڈ کا نام مسلم وقف بورڈ ہوگا۔ یو پی کی یوگی حکومت نے اس بارے میں متعلقہ محکمہ سے مشورہ طلب کیا ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

بشواجیت بنرجی

ایودھیا اراضی تنازعہ کی سماعت پوری ہونے کے دن یو پی سنی وق بورڈ کی طرف سے ثالثی پینل کے ذریعہ تجویز دے کر زمین پر دعویٰ چھوڑنے کی خبریں آنے کے ساتھ ہی یو پی سنی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر احمد فاروقی بھی موضوعِ بحث بن گئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایک نیوز چینل نے ان کا ایک مبینہ ویڈیو بھی نشر کیا ہے جس میں وہ یہ اقرار کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ بھگوان رام کا جنم ایودھیا ہی میں ہوا تھا۔

لیکن فاروقی کی باتوں سے اتر پردیش سنی وقف بورڈ کے دوسرے اراکین اور افسران متفق نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’فاروقی صاحب کچھ بھی کر سکتے ہیں۔‘‘ بورڈ کے ایک افسر نے بتایا کہ ’’فاروقی ہمیشہ برسراقتدار پارٹی کے ساتھ نزدیکیاں رکھنا چاہتے ہیں۔ مایاوتی کے دور میں بھی ان کی چلتی تھی، لیکن جب اکھلیش یادو وزیر اعلیٰ بنے تو انھوں نے ان کے ساتھ اپنا تعلق بنا لیا۔ یہاں تک کہ بی جے پی کی حکومت آنے پر بھی وہ یو پی وقف بورڈ کے چیئرمین بن گئے۔‘‘


لیکن ایودھیا معاملے کی سماعت کے آخری دن جس طرح سے وقف بورڈ کا رخ سامنے آیا، اس سے معاملہ مشتبہ نظر آنے لگا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ دنوں ہوئے کچھ واقعات کو جوڑیں تو لگتا ہے کہ فاروقی بی جے پی کے ’گیم پلان‘ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی یوگی حکومت نے اتر پردیش میں وقف کی زمینوں اور ملکیتوں کی خرید و فروخت میں بے ضابطگی اور مالکانہ حق منتقلی کو لے کر سی بی آئی جانچ کرانے کی سفارش کی ہے۔ ہفتہ کے روز ہی یو پی کی وزارت داخلہ نے کہا تھا کہ اس سلسلے میں وزات برائے پرسونل کو ایک خط بھیجا گیا ہے۔ خط میں یو پی کے شیعہ وقف بورڈ اور سنی وقف بورڈ دونوں میں ہی ملکیتوں کی خرید و فروخت اور مالکانہ حق منتقلی میں بدعنوانی کی جانچ کی بات کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ الٰہ آباد اور لکھنؤ میں اس سلسلے میں درج دو ایف آئی آر بھی درج کی گئی ہے۔

یہ سبھی کارروائی اس منظرنامے میں کی جا رہی ہے کہ اتر پردیش کی یوگی حکومت دونوں وقف بورڈ کو تحلیل کر ایک نیا یو پی مسلم وقف بورڈبنانا چاہتی ہے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ الگ الگ بورڈ ہونے سے پیسے کی بربادی ہوتی ہے اور کچھ نہیں۔ اس سلسلے میں اتر پردیش کے وزیر برائے وقف محسن رضا نے ایک نامہ نگار کو بتایا کہ دونوں ہی بورڈ پر بدعنوانی کا الزام ہے اور حکومت جلد ہی دونوں بورڈ کو تحلیل کر دے گی۔ انھوں نے کہا کہ ’’حکومت کو تمام مشورے اور خط مختلف طبقوں سے ملے ہیں جس میں دونوں بورڈ کو ضم کر دینے کی بات کہی گئی ہے۔ اس کے بعد حکومت نے متعلقہ محکمہ سے اس بارے میں مشورہ مانگا ہے۔‘‘


دلچسپ بات یہ ہے کہ 1999 میں اتر پردیش میں بی جے پی حکومت کے وزیر اعلیٰ کلیان سنگھ نے وقف بورڈ کی تقسیم کر الگ الگ شیعہ اور سنی وقف بورڈ بنائے تھے۔ اس پر محسن رضوی کہتے ہیں کہ ’’تب کی بات دوسری تھی۔ اب بورڈ سے جڑے لوگ گلے تک بدعنوانی میں ڈوبے ہیں۔ وقت آ گیا ہے کہ وقف بورڈ کی صفائی کی جائے۔‘‘

تو کیا اس سب کی وجہ سے ہی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر فاروقی بی جے پی کے دباؤ میں ہیں؟ وقف بورڈ کے طریقہ کار کو قریب سے جاننے والے ایک سینئر صحافی بتاتے ہیں کہ ’’فاروقی صاحب ایک پڑھے لکھے شخص ہیں اور انھوں نے دھیرے دھیرے اپنی جگہ بنائی ہے۔ سیتا پور کے بی ایس پی رکن اسمبلی سےنزدیکیوں کا فائدہ اٹھا کر وہ مایاوتی کے دور میں یو پی سنی وقف بورڈ کے چیئرمین بنے۔ لیکن جب اکھلیش کی حکومت بنی تو انھوں نے اعظم خان سے نزدیکی بڑھائی اور عہدہ پر بنے رہے۔ اس دوران میں اقتدار سے توازن قائم رکھنے کا فن سیکھ چکے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی حکومت کے یوگی راج میں بھی ان کا سکہ چل گیا۔‘‘ ظاہر ہے کہ ایودھیا کی متنازعہ اراضی سے دعویٰ واپس لینے کا ان کا فیصلہ بی جے پی کو پسند آئے گا اور اس کے بدلے انھیں کچھ نہ کچھ انعام تو ملے گا ہی!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 18 Oct 2019, 11:29 AM