یو پی: شیعہ سنی وقف بورڈ وں کےانضمام کی تیاری
لکھنؤ۔ اتر پردیش کی یوگی حکوت بدعنوانی کے الزامات میں گھرے سنی اور شیعہ وقف بورڈوں کو ضم کر کے ’اتر پردیش مسلم وقف بورڈ ‘تشکیل دینے پر غور کر رہی ہے اس ضمن میں انتظامیہ سے رائے طلب کی گئی ہے۔
ریاست کے وزیر برائے اوقاف محسن رضا کا کہنا ہے کہ ان کے محکمہ کے پاس خطوط کے ذریعہ ایسے بے شمار مشورے آئے ہیں کہ شیعہ اور سنی وقف بورڈوں کو باہمی طور پر ضم کر دیا جائے اور ایسا کرنا قانوناً بھی صحیح ہوگا۔
ادھر دوسری طرف سماجوادی پارٹی کے سینئر رہنما اعظم خاں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کاگراف رفتہ رفتہ نیچے آ رہا ہے۔ حکومت کو یہ بھی خبر نہیں ہے کہ اس طرح کا قانون 8 یا 10 سا ل قبل آیا تھا۔ لیکن اتر پردیش میں اسے نافذ نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ یہاں پر چھوٹے بورڈ ہیں۔ اعظم خاں نے مزید کہا کہ وہ آج بھی نہیں چاہتے کہ دونوں بورڈوں کا انضمام ہو۔
قبل ازیں محسن رضا نے اپنے بیان میں کہا تھا ’’ اتر پردیش اور بہار کو چھوڑ باقی 28 ریاستوں میں ایک ایک وقف بورڈ ہے۔ وقف ایکٹ 1995 بھی کہتا ہےکہ الگ الگ شیعہ اور سنی بورڈ تشکیل دینے کے لئے کل وقف اکائیوں میں کسی ایک طبقہ کی کم سے کم 15 فیصد حصہ داری لازمی ہے۔ یعنی اگر وقف کی کل 100 اکائیاں ہیں تو ان میں شیعہ وقف کی کم از کم 15 اکائیاں ہونی چاہئیں ۔اتر پردیش اس اصول پر کھرا نہیں اترتا ہے۔‘‘
محسن رضا نے کہا کہ اس وقت سنی وقف بورڈ کے پاس ایک لاکھ 24 ہزار وقف اکائیاں ہیں جبکہ شیعہ وقف بورڈ کے پاس 5 ہزار سے زائد اکائیاں نہیں ہیں جو محض 4 فیصد ہی ہیں۔ قانون کے نظریہ سے دیکھا جائے تو یہ پہلے سے ہی غلط چل رہا ہے۔ رضا نے کہا کہ سنی اورشیعہ مسلم وقف بورڈ کے انضمام کی تجویز کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے حکومت اس پر غور کرےگی اور ’اتر پردیش مسلم وقف بورڈ ‘ تشکیل دے گی۔
انہوں نے کہا کہ مشترکہ بورڈ کا قیام ہونے کے بعد اس میں وقف املاک کے فیصد کے مطابق شیعہ اور سنی ارکان کی نامزدگی کی جائے گی اور انہیں میں سے کسی ایک کو صدر مقرر کر دیا جائے گا۔
دریں اثنا شیعہ وقف بورڈ کے صدر وسیم رضوی نے رضا کے بیان پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ اور سنی وقف بورڈوں کو 2015 میں ہی تشکیل دیا گیا ہے جس کی مدت 5 سال کی ہے اور وقف قانون میں ایسا کوئی ضابطہ نہیں جس کے تحت بورڈ کو تحلیل کر دیا جائے۔ جب بورڈ کی مدت کار ختم ہو جائے تو حکومت جانچ کرا ئے کہ کس کے کتنے اوقاف ہیں اور ان سے کتنی آمدنی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ وقف ایکٹ کے مطابق وقف کی کل آمدنی میں کسی بھی ایک وقف بورڈ کی حصہ داری کم از کم 15 فیصد ہونی چاہئے۔ اگر حسین آباد ٹرسٹ کی آمدنی کو بھی شامل کر لیا جائے تو کل آمدنی میں شیعہ وقف بورڈ کی حصہ داری 15 فیصد سے زیادہ ہو جائے گی۔ حسین آباد ٹرسٹ کا معاملہ فی الحال عدالت میں زیر غور ہے۔
ادھر سنی سینٹرل وقف بورڈ کے ممبر ظفر فاروقی نے کہا ہے کہ حکومت اگر شیعہ اور سنی وقف بورڈوں کو ضم کرنا چاہتی ہے تو وہ اس قدم کا خیر مقدم کریں گے۔ حالانکہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سال 1999 میں اس وقت کی کلیان سنگھ حکومت نے ہی دونوں بورڈوں کو الگ الگ تشکیل دیا تھا۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ بی جے پی کی نظر میں اس وقت کی بی جے پی حکومت کا فیصلہ صحیح نہیں تھا۔
واضح رہے کہ مرکزی وقف کونسل نے اتر پردیش کے شیعہ اور سنی وقف بورڈ میں بے ضابطگی کی شکایات پر جانچ کرائی تھی۔ گزشتہ مارچ میں سامنے آئی جانچ رپورٹ میں تمام شکایات کو صحیح پایا گیا تھا۔
یو پی کے وزیر اوقاف محسن رضا نے شیعہ اور اور سنی وقف بورڈوں کے حوالے سے الگ الگ رپورٹ تیار کی تھی جنہیں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو سونپا گیا تھا۔
اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔