یوپی انتخاب: دوسرے دور کی 55 سیٹوں پر بی جے پی کو لگ سکتا ہے کرنٹ، بجنور سے لے کر بریلی تک ووٹروں میں نظر آیا جوش
اتر پردیش اسمبلی انتخاب میں دوسرے دور کی ووٹنگ ختم ہو چکی ہے، انتخابی تجزیہ نگاروں اور انتخابی حالات پر نظر رکھ رہے صحافیوں کا اندازہ ہے کہ اس دور کی 55 سیٹوں پر بی جے پی کو زبردست کرنٹ لگ سکتا ہے۔
یوپی اسمبلی انتخاب کے دوسرے مرحلہ میں ووٹنگ میں زبردست جوش دیکھنے کو ملا۔ 55 اسمبلی سیٹوں والے اس مرحلہ میں بی جے پی کو امید سے کہیں کم سیٹیں ملنے کے قیاس کیے جا رہے ہیں۔ حالانکہ 2017 میں بی جے پی نے ان 55 میں سے 38 سیٹیں جیتی تھیں۔ جن سیٹوں پر آج ووٹنگ ہوئی ان میں سے بیشتر سیٹوں کو مسلم اکثریتی مانا جاتا ہے۔ ان میں سہارنپور، بجنور، مراد آباد، سنبھل، رامپور، بریلی، بدایوں، امروہہ اور شاہجہاں پور ضلع ہیں۔ ان سبھی اضلاع میں مسلم آبادی 40 فیصد تک ہے۔ انتخابی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ اس مرحلہ کی ووٹنگ میں ووٹوں کی تقسیم نہیں دیکھی گئی اور مسلم ووٹروں نے ایک خاص پالیسی کے تحت ووٹنگ کی۔
سہارنپور ضلع کی بات کریں تو صبح سے وہاں کافی تیزی سے ووٹنگ ہوئی۔ سہارنپور میں سبھی 7 سیٹوں پر ووٹنگ فیصد کافی اچھا رہا۔ رام پور منیہاران اسمبلی کے انیس گاڑا نے ووٹ ڈالنے کے بعد کہا کہ انھوں نے اس سے پہلے ووٹنگ کو لے کر اتنا جوش کبھی نہیں دیکھا۔ دیوبند میں بھی زبردست تعداد میں ووٹنگ ہوئی ہے اور جس میں مسلم خواتین کی طویل قطاریں دیکھنے کو ملیں۔
دوسری طرف مراد آباد سے ملحق سنبھل میں بی جے پی امیدوار کی شکایت کے درمیان ووٹنگ کی شروعات ہوئی۔ بی جے پی امیدوار راجیش سنگھل کا الزام تھا کہ بی جے پی ووٹروں کو پریشان کیا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ وہ دھرنے تک پر بیٹھ گئے تھے۔
بجنور میں بھی ووٹنگ کو لے کر لوگوں میں کافی جوش رہا۔ بجنور کی ناہید انور نے بتایا کہ انھیں ووٹ ڈالنے کے لیے کافی دیر انتظار کرنا پڑا کیونکہ لوگ بڑھ چڑھ کر ووٹنگ میں حصہ لے رہے تھے۔ بجنور کا محلہ مرداگان کے سہیل نے پہلی بار ووٹ ڈالا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ روزگار چاہتے ہیں اور اس کے لیے انھوں نے ووٹ دیا ہے۔
بجنور ضلع میں 8 اسمبلی سیٹ ہیں۔ بجنور شہر سے بی جے پی رکن اسمبلی سوچی چودھری اور سماجوادی پارٹی اتحاد کے امیدوار ڈاکٹر نیرج کے درمیان اصل انتخابی لڑائی دکھائی پڑ رہی ہے۔ نجیب آباد میں بھی ووٹنگ کی رفتار بہت اچھی ہے۔ اس کے علاوہ چاند پور، نہٹور اور دھام پور میں بھی مقابلہ بی جے پی اور سماجوادی پارٹی-آر ایل ڈی اتحاد کے درمیان ہی دکھائی دیا۔ حالانکہ چاندپور، نہٹور اور دھام پور پر ووٹنگ امید سے کچھ دھیمی دکھائی پڑ رہی ہے۔
نہٹور اور نگینہ کی سیٹیں محفوظ ہیں۔ ان سیٹوں پر خواتین ووٹروں میں کافی جوش دکھائی دیا۔ نگینہ کی شمع پروین نے بتایا کہ وہ حکومت بدلنے کے لیے ووٹ دے رہی ہے۔ اس کے علاوہ مراد آباد کی 6 اسمبلی سیٹوں پر بھی زبردست ووٹنگ دیکھی گئی۔ ان سبھی سیٹوں پر مسلم آبادی اچھی خاصی ہے۔ ان سیٹوں پر بھی مقابلہ سماجوادی پارٹی-آر ایل ڈی اتحاد اور بی جے پی کے درمیان ہی نظر آ رہا ہے۔
اُدھر رام پور میں اعظم خان کے حق میں ہمدردی نظر آئی۔ اعظم خان رامپور سے 9 بار رکن اسمبلی رہ چکے ہیں اور فی الحال رکن پارلیمنٹ ہیں۔ ان کی بیوی تنزین فاطمہ نے دعویٰ کیا کہ اس بار اعظم خان کو سب سے زیادہ ووٹ ملیں گے۔ اعظم خان کے بیٹے عبداللہ اعظم بھی سوار سیٹ سے میدان میں ہیں۔ اس سیٹ پر بھی زبردست ووٹنگ کی خبر ہے۔
انتخابی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی کو سب سے بڑا جھٹکا بریلی ضلع میں لگنے کا امکان ہے۔ 2017 میں بی جے پی نے یہاں کی سبھی 9 سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔ بریلی کے انجم علی ایڈووکیٹ کا دعویٰ ہے کہ اس بار مقابلہ سیدھے سیدھے بی جے پی اور سماجوادی پارٹی کے درمیان ہے اور ووٹروں کا رجحان سماجوادی پارٹی کی طرف دیکھا گیا۔ انجم علی نے کہا کہ بریلی کی 9 میں سے 6 سیٹوں پر ڈیڑھ ڈیڑھ لاکھ مسلم آبادی ہے۔ اس کے علاوہ سماجوادی پارٹی نے ٹکٹوں کا بنٹوارا کافی اسٹریٹجی کے ساتھ کیا جس کا اسے فائدہ ملنے کا امکان ہے۔
امروہہ میں پہلے ہی کسان تحریک کا اثر رہا ہے۔ ایسے میں یہاں بھی بی جے پی کو دقتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ خبروں کے مطابق بدایوں ضلع میں بھی یادو، موریہ اور مسلمانوں کا اتحاد دیکھنے کو ملا۔ وہیں شاہجہاں پور میں یوگی کے وزیر سریش کھنہ اور سماجوادی پارٹی کے تنویر خان کے درمیان دلچسپ مقابلہ دیکھنے کو ملا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔